رسائی کے لنکس

پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ میں کب کب اختلافات سامنے آئے


ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں سپریم کورٹ کے ججز نے اپنے ساتھی جج کے فیصلے کے بر خلاف احکامات جاری کیے ہیں۔ (فائل فوٹو)
ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں سپریم کورٹ کے ججز نے اپنے ساتھی جج کے فیصلے کے بر خلاف احکامات جاری کیے ہیں۔ (فائل فوٹو)

سپریم کورٹ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے لیے گئے ازخود نوٹس کو واپس لینے اور پانچ رکنی بینچ کی طرف سے سوموٹو کا اختیار صرف چیف جسٹس کو دینے سے اعلیٰ عدالت کے ججز کے درمیان ظاہری طور پر اختلاف پر بحث جاری ہے۔

ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جن میں سپریم کورٹ کے ججز نے اپنے ساتھی جج کے فیصلے کے بر خلاف احکامات جاری کیے ہیں۔

سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور میں ان کا حکومت سے تنازع بھی ہوا البتہ عدلیہ میں بیشتر ججوں نے ان کا ہی ساتھ دیا۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے خلاف بغاوت

سپریم کورٹ میں آج بھی بینچ ون کمرے میں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی تصویر موجود ہے۔ چیف جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے ایسے جج تھے جنہیں ان کے اپنے ساتھی ججز نے گھر بھجوا دیا تھا۔

چیف جسٹس سجاد علی شاہ کا تعلق سندھ سے تھا۔ 1989 میں انہیں سندھ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ ایک سال بعد ہی وہ ترقی پاکر سپریم کورٹ کے جج تعینات ہوئے۔

سال 1993 میں جسٹس سجاد علی شاہ سپریم کورٹ کے اس بینچ میں شامل تھے جس نے اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کی برطرفی کے خلاف درخواست کی سماعت کی تھی۔

گیارہ ججز میں سے سجاد علی شاہ وہ واحد جج تھے جنہوں نے اس حکومت کی بحالی کی مخالفت کی تھی۔ بعد ازاں بے نظیر بھٹو کی حکومت میں انہیں دو سینئر ججز کی موجودگی میں چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔ البتہ بعد میں جب بے نظیر بھٹو کی حکومت کی برطرفی کا معاملہ سامنے آیا تو انہوں نے اس حکومت کی برطرفی کو بھی درست قرار دیا تھا۔

مسلم لیگ (ن) جب دوسری بار اقتدار میں آئی اور نواز شریف وزیرِ اعظم بنے تو بھاری مینڈیٹ کی وجہ سے کئی ایسے فیصلے بھی کیے گئے جن پر اعتراض کیا جاتا تھا۔

حکومت کا ایک فیصلہ انسدادِ دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کا قیام تھا۔ کراچی میں بھتہ خوری کے ایک واقعے میں ایک ایئر لائن کے مالک کے جوان بیٹے کے قتل کے بعد نواز شریف نے خصوصی عدالتیں قائم کرنے کی منظور دی تھی۔

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی نظرِ ثانی درخواست منظور کر لی
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:40 0:00

خصوصی عدالتوں کے قیام کے بارے میں سجاد علی شاہ کے ساتھ اختلاف کے باعث بعض بیانات سامنے آئے اور اسی دوران سپریم کورٹ پر حملے کا واقعہ بھی ہوا۔

نواز شریف نے آئین میں 13 ویں ترمیم کے ذریعے صدر کا اسمبلی کی برطرفی کے اختیار کے آئین کے آرٹیکل 58 ٹو بی کاخاتمہ کیا۔ تو سپریم کورٹ نے اس اختیار کو بحال کر دیا۔

اسی روز سپریم کورٹ کے ایک جج جسٹس سعید الزمان صدیقی نے ان اختیارات کو ایک بار پھر معطل کر دیا۔ یہ وہ دن تھا کہ سپریم کورٹ مکمل طور پر منقسم نظر آئی۔

اسی دوران کوئٹہ رجسٹری میں موجود بینچ کے سربراہ جسٹس ارشاد حسن خان نے سجاد علی شاہ کی بطور چیف جسٹس تعیناتی پر سوال اٹھایا اور انہیں بطور چیف جسٹس کام کرنے سے روک دیا۔

یہ بھی ایک آئینی بحران تھا کہ ایسا ہو سکتا ہے یا نہیں۔ بعد ازاں سپریم کورٹ کے 10 رکنی بینچ نے جسٹس سجاد علی شاہ کے بطور چیف جسٹس تقرری کے حکم نامے کو منسوخ کر دیا۔ یوں جسٹس سجاد علی شاہ کا عہد اپنے اختتام کو پہنچا اور جسٹس اجمل میاں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مقرر ہوئے۔

سپریم کورٹ کے سینئر وکیل حامد خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ حالیہ دنوں میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور دیگر ججز کے درمیان اختلاف 1997 کے دور کی یاد دلا رہا ہے جب ججز نے اپنے ہی ساتھی جج کے خلاف بغاوت کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بینچ کی طرف سے دیے جانے والے فیصلے کو ختم کر دینا جسٹس سجاد علی شاہ والے معاملے کی طرح ہے۔

رواں ماہ 20 اگست کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کمرہٴ عدالت میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے کے مبینہ واقعات پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے ڈی جی ایف آئی اے، چیئرمین پیمرا، وزارتِ اطلاعات و نشریات کے اعلیٰ حکام سمیت کئی اداروں کے سربراہان کو طلب کیا تھا۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ازخود نوٹس واپس لیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا کہ سو موٹو کا اختیار صرف چیف جسٹس استعمال کر سکتے ہیں۔ لہٰذا کسی بینچ کو ازخود نوٹس لینے کا اختیار نہیں۔ کوئی بھی بینچ چیف جسٹس کو نوٹس لینے کی سفارش کر سکتا ہے۔

اس حوالے سے حامد خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ اس طرح عدلیہ کا منقسم ہونا بطور عدلیہ ادارے کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ایک عرصہ سے یہ معاملہ حل طلب ہے کہ بینچ کی تشکیل اور کیس کس بینچ میں لگنا ہے اس پر فیصلہ کیا جائے البتہ یہ معاملہ ابھی بھی حل طلب ہے۔

حامد خان ایڈووکیٹ سے جب اس مسئلے کا حل پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے سینئر موسٹ پانچ ججز یا تمام ججز پر مشتمل کمیٹی بنائی جا سکتی ہے جو بینچ کی تشکیل اور کیسز فِکس کرنے کا کام کر سکتے ہیں۔ صرف چیف جسٹس کو یہ اختیار دینے سے مسائل سامنے آ سکتے ہیں۔ اب ازخود نوٹس کا اختیار بھی صرف چیف جسٹس کو ہی تفویض کر دیا گیا ہے۔

جسٹس عبد الحمید ڈوگر اور ملک میں ہنگامی حالات

ججز کے درمیان اختلاف کی ایک مثال چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر بھی تھے جنہیں سابق صدر جنرل پرویز مشرف نے ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد تین نومبر 2007 کو چیف جسٹس مقرر کیا تھا۔

'سپریم کورٹ کو جسٹس فائز عیسیٰ کی عزت کا خیال رکھنا چاہیے تھا'
please wait

No media source currently available

0:00 0:09:33 0:00

جس روز چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کو اعلیٰ عدلیہ کا سربراہ مقرر کیا گیا اس دن ہونے والی ایک سماعت کے دوران معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں نے ایک حکم کے ذریعے عبوری آئینی احکامات کو کالعدم قرار دیا تھا اور تمام فوجی اور سول حکام کو ہدایت دی کہ کوئی بھی پی سی او کے تحت خدمات انجام نہ دے۔ نہ جج پی سی او کے تحت حلف اٹھائیں۔ البتہ اس حکم نامے پر جسٹس عبد الحمید ڈوگر نے عمل نہیں کیا اور پی سی او کے تحت حلف اٹھا کر چیف جسٹس بن گئے۔

جسٹس عبد الحمید ڈوگر سپریم کورٹ کی سینارٹی لسٹ پر چوتھے نمبر پر تھے۔ اس روز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری، جسٹس رانا بھگوان داس اور جسٹس جاوید اقبال کو سپریم کورٹ سے نکالے جانے کے بعد وہ سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج بن گئے تھے۔

جسٹس عبد الحمید ڈوگر کے ساتھ اس وقت کے 60 ججز نے پی سی او پر حلف اٹھایا تھا۔ 2011 میں جب افتخار محمد چوہدری نے بطور چیف جسٹس اپنے 2007 کے پی سی او پر حلف نہ لینے کی حکم نامے کی خلاف ورزی پر توہینِ عدالت کی کارروائی شروع کی تو چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر نے عدالت سے غیر مشروط معافی مانگ لی جس پر ان کے خلاف توہینِ عدالت کی کارروائی ختم کی گئی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا معاملہ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے چند عدالتی فیصلوں پر ان کے ساتھی جج اختلاف کرتے رہے ہیں۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر 2014 میں ہونے والے حملے سے متعلق سے کیس کی سماعت کے دوران جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اختلاف پر چیف جسٹس نے اچانک کیس کی کارروائی ختم کر دی تھی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کارروائی ختم کرکے اٹھ کر چلے گئے تھے۔

بعد ازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو اس بینچ سے الگ کر دیا گیا تھا جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے اختلافی نوٹ بھی لکھا کہ کسی بھی کیس سے کسی جج کو الگ کرنے کا فیصلہ چیف جسٹس نہیں بلکہ خود وہ جج کر سکتا ہے۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھی ججز کا اختلاف

سپریم کورٹ کے اعلیٰ ترین جج چیف جسٹس گلزار احمد کے ساتھ بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا اختلاف ہوا تھا۔

وزیرِ اعظم کی طرف سے ارکان اسمبلی کو ترقیاتی فنڈز دیے جانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پانچ رکنی بینچ میں جسٹس فائز عیسیٰ شامل تھے۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے از خود نوٹس کی درخواست نمٹاتے ہوئے آبزرویشن دی تھی کہ بینچ کے ایک رکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ذاتی حیثیت میں وزیرِ اعظم کے خلاف پٹیشن دائر کی ہوئی ہے۔ اس لیے غیر جانب داری کا تقاضا یہی ہے کہ انہیں ایسے معاملات کی سماعت نہیں کرنی چاہیے جو کہ وزیرِ اعظم عمران خان سے متعلق ہوں۔

اس کے بعد اس کیس کا فیصلہ بھی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ارسال نہیں کیا گیا جس کے بعد انہوں نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو خط لکھ اس بارے میں جواب مانگا تھا۔

سپریم کورٹ بار ایسویسی ایشن کے سابق صدر اکرام چوہدری کہتے ہیں کہ ججز کے درمیان اختلاف آئندہ کچھ عرصے میں مجھے کسی نہ کسی شکل میں ایک زندہ رہنے والا ایشو نظر آرہا ہے۔

اکرام چوہدری کا کہنا تھا کہ عدلیہ کی آزادی اور قانون کی عمل داری کے لیے ضروری ہے کہ عدلیہ کی تقسیم کا جو تاثر نظر آ رہا ہے وہ ختم کیا جائے۔

دوسری جانب حامد خان ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ موجودہ وقت میں جو تقسیم نظر آئی اس کا آسان حل تھا کہ اگر اس بارے میں پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا گیا تھا تو اس کی جگہ بیشک سات رکنی بینچ بنا لیتے۔ اس میں ان دونوں ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کو بھی شامل کیا جاتا۔ بیشک ان کا اختلافی نوٹ آجاتا۔ اس سے تقسیم کا تاثر پیدا نہ ہوتا۔

'سپریم کورٹ پارلیمان سے نہیں کہہ سکتی کہ کون سا قانون بنائیں'
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:28 0:00

ان کے مطابق ان دونوں ججز کو الگ کر کے ایک مقابل بینچ تشکیل دے کر سپریم کورٹ نے خود تقسیم اور الگ ہونے کا تاثر دیا ہے۔

اکرام چوہدری ایڈووکیٹ بھی سمجھتے ہیں کہ لارجر بینچ نے پہلے سے دیے جانے والے فیصلے کے خلاف نئے بینچ میں ان دونوں ججز کو شامل نہ کرکے جو فیصلہ دیا وہ خلاف آئین ہے۔ اس میں کوئی قانونی رکاوٹ نہ تھی کہ اس لارجر بینچ میں اگر وہ ججز بھی ساتھ شامل ہوتے۔

پاکستان بار کونسل کے سابق وائس چئیرمین عابد ساقی کا کہنا ہے کہ اس وقت 1997 کی تاریخ دہرائی جا رہی ہے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھی ججز نے ان کے فیصلے کو ختم کیا ہے۔

عابد ساقی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق اگر کسی بینچ کے فیصلے پر اعتراض ہو تو اس پر متعلقہ فریق نظرِ ثانی درخواست دائر کر سکتا ہے اور وہی ججز اس کیس کو سن سکتے ہیں۔ البتہ ایک جج کے فیصلے کو دوسرے جج ختم کر دیں ایسا ماضی میں چند بار دیکھنے میں آیا۔ ایسا ہونا عدلیہ کی اپنی آزادی اور خودمختاری کے لیے خطرناک ہوگا۔

XS
SM
MD
LG