اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کی زیرصدارت کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس میں ملک میں انسداد دہشت گردی کے کوششوں کے لیے کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرنے کے عزم کو دہرایا گیا۔
ملک کی سیاسی اور اعلٰی عسکری قیادت کے اس اجلاس کے بعد منگل کی شام ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ شدت پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔
اجلاس میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے معاملات سے نمٹنے کے لیے پاکستانی طالبان کے مختلف گروہوں سے بات چیت کی حکومت کی حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سمیت ملک کی مسلح افواج کے سربراہان اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی اجلاس میں شریک تھے۔
وفاقی سیکرٹری داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل ظہیر السلام نے اجلاس کو داخلی سلامتی کی صورتحال اور ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں قیام امن کے لیے جاری کارروائی کے بارے میں بھی بریفننگ دی۔
دفاعی تجزیہ کار سلطان محمود ہالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر ملا فضل اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے تاہم اُن کے بقول حکومت اگر بات چیت کے عزم پر کار بند رہتی ہے تو مستقبل میں طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت متوقع ہے۔
’’ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر اس کا کوئی بہتر اثر ہو اور تحریک طالبان اس جانب مائع ہو جائے لیکن ابھی فی الوقت مجھے لگتا ہے کہ اس کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ ہاں حکومت اپنی تیاری جاری رکھے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے اپنے منصوبے تیار رکھے یہ احسن بات ہے لیکن اس میں وقت لگے گا۔‘‘
کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری داخلہ نے شرکاء کو مجوزہ قومی سلامتی پالیسی کے خدوخال کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔
توقع کی جا رہی تھی کہ اس اہم اجلاس میں پاکستان کو درپیش دہشت گردی و انتہا پسندی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نئی قومی سلامتی پالیسی کے مسودے کی منظوری بھی دی جائے گی تاہم سرکاری بیان میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
گزشتہ اتوار کو وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا تھا کہ جلد ہی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی سلامتی کی نئی پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا، وزیر داخلہ کے بقول نئی پالیسی میں شدت پسندوں سے مذاکرات سمیت دیگر آپشنز شامل ہیں۔
نواز شریف کی حکومت نے رواں سال جون میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں قیام امن کے لیے متعدد بار ایک جامع قومی سلامتی کی پالیسی متعارف کروانے کا اعلان کیا لیکن اس ضمن میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں تین اہم امور زیر بحث آئے جن میں ملک کے قومی مفادات کے تحفط کے لیے قومی سلامتی کی حکمت عملی تیار کرنا، داخلی سلامتی اور افغانستان کے ساتھ تعلقات شامل تھے۔
کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کے عوام کی اقتصادی ترقی و خوشحالی کا دار و مدار ملک کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے میں ہے۔
بیان کے مطابق کمیٹی کے ممبران قومی سلامتی کے معاملات پر پوری طرح متفق تھے اور انھوں نے مغربی سرحد پر سکیورٹی بڑھانے، ملک کے قبائلی علاقوں کی ترقی اور دیگر سرحدی علاقوں میں معیار زندگی کو ملک کے باقی حصوں کے برابر لانے کے لیے اقدامات پر بھی اتفاق کیا۔
وزیراعظم نے کمیٹی کے ارکان کو اپنے حالیہ دورہ کابل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سیاسی استحکام، اقتصادی اور تجارتی تعاون بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔
حکومت نے ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا لیکن یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مذاکرات کی کوششیں تقریباً منجمد ہو گئیں۔
ملک کی سیاسی اور اعلٰی عسکری قیادت کے اس اجلاس کے بعد منگل کی شام ایک سرکاری بیان میں کہا گیا کہ شدت پسندوں کے خلاف طاقت کے استعمال کو صرف آخری حربے کے طور پر استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے گی۔
اجلاس میں انتہا پسندی اور عسکریت پسندی کے معاملات سے نمٹنے کے لیے پاکستانی طالبان کے مختلف گروہوں سے بات چیت کی حکومت کی حکمت عملی پر بھی غور کیا گیا۔
پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سمیت ملک کی مسلح افواج کے سربراہان اور انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی اجلاس میں شریک تھے۔
وفاقی سیکرٹری داخلہ اور ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی لفٹیننٹ جنرل ظہیر السلام نے اجلاس کو داخلی سلامتی کی صورتحال اور ملک کے اقتصادی مرکز کراچی میں قیام امن کے لیے جاری کارروائی کے بارے میں بھی بریفننگ دی۔
دفاعی تجزیہ کار سلطان محمود ہالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے نئے امیر ملا فضل اللہ یہ کہہ چکے ہیں کہ وہ حکومت سے مذاکرات نہیں کریں گے تاہم اُن کے بقول حکومت اگر بات چیت کے عزم پر کار بند رہتی ہے تو مستقبل میں طالبان سے مذاکرات میں پیش رفت متوقع ہے۔
’’ہو سکتا ہے کہ آگے چل کر اس کا کوئی بہتر اثر ہو اور تحریک طالبان اس جانب مائع ہو جائے لیکن ابھی فی الوقت مجھے لگتا ہے کہ اس کے کوئی آثار نہیں ہیں۔ ہاں حکومت اپنی تیاری جاری رکھے اور اس مسئلے کو حل کرنے کے اپنے منصوبے تیار رکھے یہ احسن بات ہے لیکن اس میں وقت لگے گا۔‘‘
کابینہ کی قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں سیکرٹری داخلہ نے شرکاء کو مجوزہ قومی سلامتی پالیسی کے خدوخال کے بارے میں بھی بریفنگ دی۔
توقع کی جا رہی تھی کہ اس اہم اجلاس میں پاکستان کو درپیش دہشت گردی و انتہا پسندی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے نئی قومی سلامتی پالیسی کے مسودے کی منظوری بھی دی جائے گی تاہم سرکاری بیان میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا گیا۔
گزشتہ اتوار کو وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے بتایا تھا کہ جلد ہی کابینہ سے منظوری کے بعد قومی سلامتی کی نئی پالیسی کا اعلان کر دیا جائے گا، وزیر داخلہ کے بقول نئی پالیسی میں شدت پسندوں سے مذاکرات سمیت دیگر آپشنز شامل ہیں۔
نواز شریف کی حکومت نے رواں سال جون میں اقتدار سنبھالنے کے بعد ملک میں قیام امن کے لیے متعدد بار ایک جامع قومی سلامتی کی پالیسی متعارف کروانے کا اعلان کیا لیکن اس ضمن میں کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہو سکی تھی۔
کابینہ کی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے اجلاس کے بعد جاری ہونے والے سرکاری بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں تین اہم امور زیر بحث آئے جن میں ملک کے قومی مفادات کے تحفط کے لیے قومی سلامتی کی حکمت عملی تیار کرنا، داخلی سلامتی اور افغانستان کے ساتھ تعلقات شامل تھے۔
کمیٹی نے اس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان کے عوام کی اقتصادی ترقی و خوشحالی کا دار و مدار ملک کی سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے میں ہے۔
بیان کے مطابق کمیٹی کے ممبران قومی سلامتی کے معاملات پر پوری طرح متفق تھے اور انھوں نے مغربی سرحد پر سکیورٹی بڑھانے، ملک کے قبائلی علاقوں کی ترقی اور دیگر سرحدی علاقوں میں معیار زندگی کو ملک کے باقی حصوں کے برابر لانے کے لیے اقدامات پر بھی اتفاق کیا۔
وزیراعظم نے کمیٹی کے ارکان کو اپنے حالیہ دورہ کابل سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں سیاسی استحکام، اقتصادی اور تجارتی تعاون بڑھانے کے لیے مختلف اقدامات پر اتفاق کیا گیا۔
حکومت نے ستمبر میں تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کے بعد شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے پر بھی اتفاق کیا تھا لیکن یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک مشتبہ امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد مذاکرات کی کوششیں تقریباً منجمد ہو گئیں۔