اسلام آباد —
وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا ہے کہ دہشت گردی و انتہا پسندی سے نمٹنے اور ملک میں امن کے قیام کے لیے قومی سکیورٹی پالیسی کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے جس کا اعلان آئندہ چند روز میں وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد کیا جائے گا۔
اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ ’’اس پالیسی کے تین حصے ہوں گے، ایک خفیہ ہوگا کیونکہ قومی سلامتی کے معاملات ہیں، دوسرا اسٹریٹیجک ہوگا کہ ہم نے کس طرف، کیسے بڑھنا ہے، کیا موجودہ صورتحال کو ہی لے کر آگے بڑھنا ہے کیا امن کا راستہ اپنایا جائے کیا ملٹری آپریشن ہوگا یا یہ دونوں ملا کر کچھ کیا جائے۔ ۔ ۔ تیسرا آپریشنل ہوگا ہم نے پاکستان کے گلی کوچوں کو محفوظ بنانا ہے۔‘‘
انھوں نے اس کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ پالیسی کے نافذ العمل ہونے سے قیام امن کی حکومتی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس میں ان کے بقول پاکستان کو عراق سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔
رواں سال جون میں برسر اقتدار آنے کے بعد نواز شریف کی حکومت متعدد بار قومی سکیورٹی پالیسی متعارف کرنے کا اعلان کر چکی ہے لیکن بوجہ تاحال اس پر کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
وزارت داخلہ کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس پالیسی کی تیاری میں صوبوں، متعلقہ محکموں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کی مشاورت کے بعد متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا جانا ہے جس کی وجہ سے اس کی تیاری میں تاخیر ہورہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ملک پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت اب تک 40 ہزار سے زائد شہری دہشت گردی و انتہا پسندی کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
نوازشریف کی حکومت نے ستمبرمیں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر قیام امن کے لیے ایک حکمت عملی پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت شدت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔
لیکن یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد مذاکرات کی یہ کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ ملک کی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والوں کی استعداد کار کو بہتر بنانے اور انھیں جدید آلات سے لیس کرنے کے علاوہ انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید فعال بنانا از حد ضروری ہے۔
اتوار کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ ’’اس پالیسی کے تین حصے ہوں گے، ایک خفیہ ہوگا کیونکہ قومی سلامتی کے معاملات ہیں، دوسرا اسٹریٹیجک ہوگا کہ ہم نے کس طرف، کیسے بڑھنا ہے، کیا موجودہ صورتحال کو ہی لے کر آگے بڑھنا ہے کیا امن کا راستہ اپنایا جائے کیا ملٹری آپریشن ہوگا یا یہ دونوں ملا کر کچھ کیا جائے۔ ۔ ۔ تیسرا آپریشنل ہوگا ہم نے پاکستان کے گلی کوچوں کو محفوظ بنانا ہے۔‘‘
انھوں نے اس کی مزید تفصیلات بتانے سے گریز کرتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا کہ پالیسی کے نافذ العمل ہونے سے قیام امن کی حکومتی کوششوں کو تقویت ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے دہشت گردی کا سامنا ہے اور اس میں ان کے بقول پاکستان کو عراق سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔
رواں سال جون میں برسر اقتدار آنے کے بعد نواز شریف کی حکومت متعدد بار قومی سکیورٹی پالیسی متعارف کرنے کا اعلان کر چکی ہے لیکن بوجہ تاحال اس پر کوئی ٹھوس پیش رفت نہیں ہوسکی تھی۔
وزارت داخلہ کے عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ اس پالیسی کی تیاری میں صوبوں، متعلقہ محکموں قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ اداروں کی مشاورت کے بعد متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا جانا ہے جس کی وجہ سے اس کی تیاری میں تاخیر ہورہی ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرنے والے ملک پاکستان کے سیاسی رہنماؤں اور سکیورٹی اہلکاروں سمیت اب تک 40 ہزار سے زائد شہری دہشت گردی و انتہا پسندی کی وجہ سے ہلاک ہوچکے ہیں اور معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
نوازشریف کی حکومت نے ستمبرمیں تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر قیام امن کے لیے ایک حکمت عملی پر اتفاق کیا تھا جس کے تحت شدت پسندوں کے ساتھ امن مذاکرات کا ڈول ڈالا گیا۔
لیکن یکم نومبر کو شمالی وزیرستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد مذاکرات کی یہ کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مذاکرات کے ساتھ ساتھ ملک کی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والوں کی استعداد کار کو بہتر بنانے اور انھیں جدید آلات سے لیس کرنے کے علاوہ انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مزید فعال بنانا از حد ضروری ہے۔