رسائی کے لنکس

نواز شریف کوٹ لکھپت جیل منتقل، 'بی کلاس' میں رکھا جائے گا


قومی احتساب بیورو کی ٹیم نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا۔

منگل نواز شریف کو راولپنڈی کے نور خان ایئربیس سے خصوصی طیارے کے ذریعے لاہور لایا گیا جس کے بعد انھیں سخت سیکیورٹی کے حصار میں سینٹرل جیل کوٹ لکھپت جیل منتقل کیا گیا جہاں انہیں 'بی کلاس' میں رکھا جائے گا۔

وزیراعلٰی پنجاب سردار عثمان بزدار کے ترجمان ڈاکٹر شہباز گِل نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو کوٹ لکھپت جیل میں بی کلاس دئیے جانے پر کہا کہ اُن کی حکومت کسی کے بھی خلاف سیاسی انتقام نہیں لینا چاہتی۔ نواز شریف کو جیل میں بی کلاس دی گئی ہے کیونکہ وہ اس کے حقدار ہیں۔

“قانون کے مطابق ایسے تمام افراد جو ٹیکس ادا کرتے ہیں، حکومتی نمائندوں، وزراء، وزراء اعظم کو بی کلاس یا بہتر کلاس دی جا سکتی ہے اور نواز شریف بھی اسی فہرست میں آتے ہیں۔ جیل کے جس سیل میں نواز شریف کو رکھا گیا ہے اسی سیل میں پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو، سابق صدر آصف علی زرداری اور شہباز شریف بھی رہ چکے ہیں۔ کوٹ لکھپت جیل کے سیل میں نواز شریف کو بیڈ، بستر اور ٹیلیویژن کی سہولت میسر ہو گی جبکہ چہل قدمی کے لیے سابق وزیراعظم نواز شریف اپنے سیل کے سامنے والا چھوٹا گراؤنڈ بھی استعمال کر سکیں گے”۔

اس سے پہلے نواز شریف کی کوٹ لکھپت جیل منتقلی کے وقت مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کی بڑی تعداد موجود تھی البتہ کچھ کارکنوں نے نواز شریف کی گاڑی کو روکنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے انہیں منتشر کر دیا۔

کوٹ لکھ پت جیل متقلی کے وقت انتظامیہ نے دو راستوں کا انتخاب کیا تھا۔ پیکو روڈ سے کوٹ لکھ پت جانے والے راستے کو مسلم لیگ ن کے کارکنوں اور عام شہریوں کے لیے صبح ہی بند کر دیا گیا تھا۔ تاہم نواز شریف کو انڈسٹریل اسٹیٹ والے راستے سے کوٹ لکھ پت جیل لے جایا گیا، جہاں ن لیگ کے کارکن موجود تھے۔

اِس موقع پر مسلم لیگ ن کے رہنما بلال یٰسین نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انہیں دوپہر بارہ بجے کے بعد کا وقت دیا گیا تھا۔ شاید اسی لیے کارکن زیادہ تعداد میں جمع نہیں ہو سکے۔ وہ خود جب یہاں پہنچے تو اُن کے قائد کو جیل منتقل کیا جا چکا تھا۔

تجزیہ کار سلیم بخاری سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کی گرفتاری سے پاکستان کی سیاست میں مشکلات مزید بڑھیں گی اور مسلم لیگ ن کی سیاست کو مزید پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

انھوں نے کہا کہ “پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے اُن کی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ نواز شریف کی طرف سے بھی یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ نیب، عدلیہ اور ایف آئی اے کو اُن کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے”۔

گزشتہ روز راولپنڈی کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب ریفرنسز کے العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو سات سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ نواز شریف کی استدعا پر نے عدالت نے انہیں اڈیالہ جیل کے بجائے کوٹ لکھپت بھیجنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

XS
SM
MD
LG