اسلام آباد —
پاکستان کی وزارت برائے اقتصادی امور کی سیکرٹری نرگس سیٹھی نے کہا ہے کہ اقتصادی رابطہ کونسل کے منظور کردہ نئے ضابطہ کار کے تحت تمام بین الاقوامی اور غیر ملکی امداد حاصل کرنے والی مقامی غیر سرکاری تنظیموں (این جی اوز) کو اپنی سرگرمیوں اور مالی وسائل کی تفصیلات سے حکومت کو آگاہ کرنا لازمی ہوگا۔
وائس آف امریکہ سے ہفتے کو خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد قطعی ان تنظمیوں کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنا نہیں بلکہ پورے عمل کو شفاف بنانا ہے۔
ان بقول اس سے این جی اوز کے خلاف عوام میں پائے جانے والے منفی تاثر اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
’’جو کوئی (تنظیم یا ادارہ) بھی فارن فنڈنگ لے رہا ہے وہ اس ضابطہ کار کے دائرے میں آتا ہے۔‘‘
پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق تنقید میں حالیہ برسوں میں اُس وقت ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا گیا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ملک میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے اہلکاروں نے بھی مدد کی۔ علاوہ ازیں وزیر مملکت برائے مذہبی امور بھی اس تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں مدارس اور مساجد کی نگرانی سے متعلق کوئی ضابطہ کار موجود نہیں۔
اقتصادی رابطہ کونسل کی سطح پر حال ہی میں منظور ہوئے اس مجوزہ ضابطہ کار کے تحت متعلقہ غیر سرکاری تنظیمیں حکومت سے پانچ سال تک کا معاہدہ کرنے کی پابند ہوں گی اور اس کی خلاف وزری کی صورت میں اس معاہدے کو منسوخ بھی کیا جا سکے گا۔
’’اگر آپ نے حکومت کو کہا ہے کہ آپ نے لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے میں کام کرنا ہے اور صوبائی حکومت یا کوئی حکومت کا محکمہ شکایت کرے کہ ایسا نہیں ہو رہا تو آپ سے پوچھا جائے گا اور آپ سے معاہدے میں تبدیلی کا بھی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
تاہم نرگس سیٹھی کا کہنا تھا کہ مجوزہ ضابطہ کار میں معاہدے کی منسوخی کی صورت میں تنظیم کو اس کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہوگا اور حکومت اور تنظیم کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی اس پر فیصلہ کرے گی۔
ترقیاتی شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پٹن کے سربراہ سرور باری اس ضابطہ کار سے اتفاق نا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کا یہ قدم ’’بدنیتی‘‘ پر مبنی ہے۔
’’چیزیں پہلے سے موجود ہیں تو پھر یہ (نیا ضابطی کار) کیوں؟ آپ کس کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر حکومت کم سے کم اجرت کا نفاذ نہیں کر رہی اور کوئی این جی او اس پر آواز اٹھاتی ہے جبکہ اس کا کام صرف ٹیکے لگانا ہے تو حکومت کو مسئلہ ان (متحرک) این جی اوز سے ہو رہا ہے۔‘‘
اس ضابطہ کار کے تحت غیر سرکاری تنظیمیں مقامی سطح پر بھی اپنے مالی وسائل اکٹھے کر سکیں گی جبکہ بیرون ملک بینک اکاونٹ کھولنے کی صورت میں انھیں اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے اجازت حاصل کرنا پڑے گی۔
وائس آف امریکہ سے ہفتے کو خصوصی گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد قطعی ان تنظمیوں کی سرگرمیوں میں خلل ڈالنا نہیں بلکہ پورے عمل کو شفاف بنانا ہے۔
ان بقول اس سے این جی اوز کے خلاف عوام میں پائے جانے والے منفی تاثر اور غلط فہمیوں کو دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔
’’جو کوئی (تنظیم یا ادارہ) بھی فارن فنڈنگ لے رہا ہے وہ اس ضابطہ کار کے دائرے میں آتا ہے۔‘‘
پاکستان میں غیر سرکاری تنظیموں سے متعلق تنقید میں حالیہ برسوں میں اُس وقت ایک مرتبہ پھر اضافہ دیکھا گیا جب اس بات کا انکشاف ہوا کہ ملک میں القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی تلاش میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے اہلکاروں نے بھی مدد کی۔ علاوہ ازیں وزیر مملکت برائے مذہبی امور بھی اس تشویش کا اظہار کر چکے ہیں کہ پاکستان میں مدارس اور مساجد کی نگرانی سے متعلق کوئی ضابطہ کار موجود نہیں۔
اقتصادی رابطہ کونسل کی سطح پر حال ہی میں منظور ہوئے اس مجوزہ ضابطہ کار کے تحت متعلقہ غیر سرکاری تنظیمیں حکومت سے پانچ سال تک کا معاہدہ کرنے کی پابند ہوں گی اور اس کی خلاف وزری کی صورت میں اس معاہدے کو منسوخ بھی کیا جا سکے گا۔
’’اگر آپ نے حکومت کو کہا ہے کہ آپ نے لڑکیوں کی تعلیم کے شعبے میں کام کرنا ہے اور صوبائی حکومت یا کوئی حکومت کا محکمہ شکایت کرے کہ ایسا نہیں ہو رہا تو آپ سے پوچھا جائے گا اور آپ سے معاہدے میں تبدیلی کا بھی کہا جا سکتا ہے۔‘‘
تاہم نرگس سیٹھی کا کہنا تھا کہ مجوزہ ضابطہ کار میں معاہدے کی منسوخی کی صورت میں تنظیم کو اس کے خلاف اپیل کا حق حاصل ہوگا اور حکومت اور تنظیم کے نمائندوں پر مشتمل کمیٹی اس پر فیصلہ کرے گی۔
ترقیاتی شعبے میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم پٹن کے سربراہ سرور باری اس ضابطہ کار سے اتفاق نا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکومت کا یہ قدم ’’بدنیتی‘‘ پر مبنی ہے۔
’’چیزیں پہلے سے موجود ہیں تو پھر یہ (نیا ضابطی کار) کیوں؟ آپ کس کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں؟ اگر حکومت کم سے کم اجرت کا نفاذ نہیں کر رہی اور کوئی این جی او اس پر آواز اٹھاتی ہے جبکہ اس کا کام صرف ٹیکے لگانا ہے تو حکومت کو مسئلہ ان (متحرک) این جی اوز سے ہو رہا ہے۔‘‘
اس ضابطہ کار کے تحت غیر سرکاری تنظیمیں مقامی سطح پر بھی اپنے مالی وسائل اکٹھے کر سکیں گی جبکہ بیرون ملک بینک اکاونٹ کھولنے کی صورت میں انھیں اسٹیٹ بنک آف پاکستان سے اجازت حاصل کرنا پڑے گی۔