پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے رہائشیوں نے سرکاری فوج پر پیر کو الزام لگایا ہے کہ طالبان جنگجوؤں کے خلاف کارروائی میں کئی عام شہری بھی مارے گئے ہیں۔
فوج کی طرف سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم گزشتہ ہفتے ایسے ہی الزامات پر عسکری حکام کہہ چکے ہیں کہ کارروائی صرف اُن شدت پسندوں کے خلاف کی گئی جنہوں نے سرکاری فورسز کو شمالی وزیرستان میں نشانہ بنایا۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں 18 دسمبر کی شام کجھوری چیک پوسٹ سے ملحقہ ایک مسجد سے خودکش بمبار نے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرا دیا تھا جس میں پانچ اہلکار ہلاک اور لگ بھگ 30 زخمی ہو گئے تھے۔
عسکری حکام کے مطابق ہلاک و زخمی فوجی اہلکاروں کو وہاں سے منتقل کرنے کے لیے جو قافلہ بھیجا گیا تھا اُس پر بھی شدت پسندوں نے گھات لگا کر فائرنگ کی جس کے بعد کی گئی جوابی کارروائی میں ازبک جنگجوؤں سمیت کم از کم 33 شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق یہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں کہ فوج اس علاقے میں بڑی فوجی کارروائی کر سکتی ہے۔
میر علی کے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک کی لڑائی میں متعدد عام قبائلی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جس علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کو رسائی نہیں اس لیے آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد اور کسی بھی طرح کی کارروائی میں مارے جانے والوں کی شناخت کی فوری طور پر آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً نا ممکن ہے۔
رائیٹرز کے مطابق شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر نے کہا ہے کہ اگر فوج کی طرف سے مبینہ کارروائی بند نا کی گئی تو علاقے میں موجود جنگجو جوابی حملے شروع کر دیں گے۔
شمالی وزیرستان کی انتظامیہ میں شامل ایک عہدیدار نے بتایا کہ قبائلی عمائدین اور فوج کے نمائندوں کا پیر کو ملاقات یا جرگہ ہوا جس میں مسئلے کے حل پر مذاکرات ہوئے۔
تاہم سرکاری طور پر ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
فوج کی طرف سے اس پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا ہے تاہم گزشتہ ہفتے ایسے ہی الزامات پر عسکری حکام کہہ چکے ہیں کہ کارروائی صرف اُن شدت پسندوں کے خلاف کی گئی جنہوں نے سرکاری فورسز کو شمالی وزیرستان میں نشانہ بنایا۔
افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں 18 دسمبر کی شام کجھوری چیک پوسٹ سے ملحقہ ایک مسجد سے خودکش بمبار نے بارود سے بھرا ٹرک ٹکرا دیا تھا جس میں پانچ اہلکار ہلاک اور لگ بھگ 30 زخمی ہو گئے تھے۔
عسکری حکام کے مطابق ہلاک و زخمی فوجی اہلکاروں کو وہاں سے منتقل کرنے کے لیے جو قافلہ بھیجا گیا تھا اُس پر بھی شدت پسندوں نے گھات لگا کر فائرنگ کی جس کے بعد کی گئی جوابی کارروائی میں ازبک جنگجوؤں سمیت کم از کم 33 شدت پسند مارے جا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے رائیٹرز کے مطابق یہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں کہ فوج اس علاقے میں بڑی فوجی کارروائی کر سکتی ہے۔
میر علی کے رہائشیوں کا دعویٰ ہے کہ اب تک کی لڑائی میں متعدد عام قبائلی بھی ہلاک ہو چکے ہیں۔
جس علاقے میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کی گئی وہاں تک میڈیا کے نمائندوں کو رسائی نہیں اس لیے آزاد ذرائع سے ہلاکتوں کی تعداد اور کسی بھی طرح کی کارروائی میں مارے جانے والوں کی شناخت کی فوری طور پر آزاد ذرائع سے تصدیق تقریباً نا ممکن ہے۔
رائیٹرز کے مطابق شدت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر نے کہا ہے کہ اگر فوج کی طرف سے مبینہ کارروائی بند نا کی گئی تو علاقے میں موجود جنگجو جوابی حملے شروع کر دیں گے۔
شمالی وزیرستان کی انتظامیہ میں شامل ایک عہدیدار نے بتایا کہ قبائلی عمائدین اور فوج کے نمائندوں کا پیر کو ملاقات یا جرگہ ہوا جس میں مسئلے کے حل پر مذاکرات ہوئے۔
تاہم سرکاری طور پر ایسا کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔