اسلام آباد —
پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں آفات سے نمٹنے کے علاقائی ادارے فاٹا ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کی طرف سے جاری کردہ تازہ اعداد و شمار کے مطابق شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد چار لاکھ 50 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
اب تک نقل مکانی کرنے والوں میں ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد بچے جب کہ لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار خواتین شامل ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں شمالی وزیرستان سے بچوں کی نقل مکانی کے باعث پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیوں کہ شمالی وزیرستان میں طالبان کی دھمکیوں کے بعد تقریباً گزشتہ دو سال سے اس علاقے میں انسداد پولیو مہم معطل تھی۔
وزیراعظم کے انسداد پولیو سیل کی سربراہ عائشہ رضا فاروق نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ نقل مکانی کرنے والے خاندان جب شمالی سے وزیرستان سے باہر نکل رہے ہیں تو فوج کی طرف سے قائم چیک پوسٹوں پر ان افراد کے کوائف اندراج کے وقت تمام عمر کے لوگوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔
''یہ وہ لوگ ہیں جن تک بدقسمتی سے پچھلے تقریباً دو سال سے ہماری ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں تھی لہذا ہم چاہ رہے ہیں کہ اب یہ لوگ باہر آ ر ہے اور ہم ان لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے اس قبائلی علاقے سے نکلنے والے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے پر زور دیا جا رہا ہے۔''
عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ عارضی کیمپوں یا ان سے باہر رہنے والے ان خاندانوں کے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے کا جامع منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
''جتنے بھی حکومت نے کیمپ لگائے ہیں، جب یہ وہاں رہیں گے تو ان کی دوبارہ ویکسینشن کی جائے گی ۔۔۔۔ 10 سال اور 10 سال سے کم عمر کے چھوٹے بچے اس مہم کا ٹارگٹ ہوں گے اور پھر توقع کی جا رہی ہے کہ ایک بڑی تعداد اپنے میزبانوں کے ہاں رہائش اختیار کرے گی۔ خیبر پختونخواہ کے قریبی جنوبی اضلاع لکی مروت، ٹانک، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل جہاں یہ لوگ رہ سکتے ہیں وہاں کے لیے علیحدہ پروگرام بنا لیا گیا ہے۔ ہم وہاں پولیو ویکسنیشن مہم جاری رکھیں گے اور مہم چلائیں گے۔''
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان کامران ضیا کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے مزید خاندانوں کی نقل مکانی جاری ہے۔
''مفت ٹرانسپورٹ مہیا کر رہے ہیں اور ہم روزانہ شمالی وزیرستان کے اندر گاڑیا ں بھی بھیج رہے ہیں۔ ان کے انخلا میں، ان کے لیے انتظامات میں اور خوراک کی تقسیم سمیت ہر چیز میں فوج ہماری مدد کر رہی ہے۔۔۔۔ پچھلے چار دن میں بہت زیادہ (لوگ) آئے ہیں اور آج مقابلاتاً کم (لوگ) آئے ہیں۔ اور چونکہ ہمارے پاس آبادی کے اندازے ہیں اور ساڑھے چار لاکھ لوگ نکل آئے ہیں اور ان کا اندراج ہو چکا ہے اور اندازہ ہے کہ تقریباً 90 فیصد لوگ جو متاثر ہو سکتے تھے وہ وہاں سے نکل چکے ہیں۔''
بنوں کے محکمہ صحت کے ضلعی افسر گل مرجان نے بتایا کہ اس ضلع میں آنے والے خاندانوں کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکز بھی تعینات کی گئی ہیں۔
''ہماری کوشش یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ آ رہے ہیں بڑے، بوڑھے، مرد، عورتیں سب کی ویکسینیشن ہم وہاں پر کر رہے ہیں۔ پولیو قطرے سب کو پلا رہے ہیں۔ ہم روزانہ پانچ ہزار لوگوں کی ویکسینیشن کرتے ہیں۔''
شمالی وزیرستان میں 15 جون کو 'ضرب عضب' آپریشن شروع کیا گیا تھا جس کے بعد گزشتہ پیر کو کرفیو میں نرمی کی گئی تاکہ وہاں سے لوگ نقل مکانی شروع کر سکیں۔
نقل مکانی کرنے والے افراد کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کیمپ بھی بنائے گئے ہیں جب کہ عالمی ادارہ برائے خوراک 'ڈبلیو ایف پی' کی طرف سے راشن کی فراہمی بھی جاری ہے۔
اب تک نقل مکانی کرنے والوں میں ایک لاکھ 90 ہزار سے زائد بچے جب کہ لگ بھگ ایک لاکھ 40 ہزار خواتین شامل ہیں۔
اتنی بڑی تعداد میں شمالی وزیرستان سے بچوں کی نقل مکانی کے باعث پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کیوں کہ شمالی وزیرستان میں طالبان کی دھمکیوں کے بعد تقریباً گزشتہ دو سال سے اس علاقے میں انسداد پولیو مہم معطل تھی۔
وزیراعظم کے انسداد پولیو سیل کی سربراہ عائشہ رضا فاروق نے وائس آف امریکہ سے انٹرویو میں کہا کہ نقل مکانی کرنے والے خاندان جب شمالی سے وزیرستان سے باہر نکل رہے ہیں تو فوج کی طرف سے قائم چیک پوسٹوں پر ان افراد کے کوائف اندراج کے وقت تمام عمر کے لوگوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔
''یہ وہ لوگ ہیں جن تک بدقسمتی سے پچھلے تقریباً دو سال سے ہماری ٹیموں کی رسائی ممکن نہیں تھی لہذا ہم چاہ رہے ہیں کہ اب یہ لوگ باہر آ ر ہے اور ہم ان لوگوں تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس لیے اس قبائلی علاقے سے نکلنے والے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے پر زور دیا جا رہا ہے۔''
عائشہ رضا فاروق نے کہا کہ عارضی کیمپوں یا ان سے باہر رہنے والے ان خاندانوں کے بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلانے کا جامع منصوبہ تیار کیا گیا ہے۔
''جتنے بھی حکومت نے کیمپ لگائے ہیں، جب یہ وہاں رہیں گے تو ان کی دوبارہ ویکسینشن کی جائے گی ۔۔۔۔ 10 سال اور 10 سال سے کم عمر کے چھوٹے بچے اس مہم کا ٹارگٹ ہوں گے اور پھر توقع کی جا رہی ہے کہ ایک بڑی تعداد اپنے میزبانوں کے ہاں رہائش اختیار کرے گی۔ خیبر پختونخواہ کے قریبی جنوبی اضلاع لکی مروت، ٹانک، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل جہاں یہ لوگ رہ سکتے ہیں وہاں کے لیے علیحدہ پروگرام بنا لیا گیا ہے۔ ہم وہاں پولیو ویکسنیشن مہم جاری رکھیں گے اور مہم چلائیں گے۔''
آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان کامران ضیا کہتے ہیں کہ شمالی وزیرستان سے مزید خاندانوں کی نقل مکانی جاری ہے۔
''مفت ٹرانسپورٹ مہیا کر رہے ہیں اور ہم روزانہ شمالی وزیرستان کے اندر گاڑیا ں بھی بھیج رہے ہیں۔ ان کے انخلا میں، ان کے لیے انتظامات میں اور خوراک کی تقسیم سمیت ہر چیز میں فوج ہماری مدد کر رہی ہے۔۔۔۔ پچھلے چار دن میں بہت زیادہ (لوگ) آئے ہیں اور آج مقابلاتاً کم (لوگ) آئے ہیں۔ اور چونکہ ہمارے پاس آبادی کے اندازے ہیں اور ساڑھے چار لاکھ لوگ نکل آئے ہیں اور ان کا اندراج ہو چکا ہے اور اندازہ ہے کہ تقریباً 90 فیصد لوگ جو متاثر ہو سکتے تھے وہ وہاں سے نکل چکے ہیں۔''
بنوں کے محکمہ صحت کے ضلعی افسر گل مرجان نے بتایا کہ اس ضلع میں آنے والے خاندانوں کے بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کے لیے لیڈی ہیلتھ ورکز بھی تعینات کی گئی ہیں۔
''ہماری کوشش یہ ہے کہ جتنے بھی لوگ آ رہے ہیں بڑے، بوڑھے، مرد، عورتیں سب کی ویکسینیشن ہم وہاں پر کر رہے ہیں۔ پولیو قطرے سب کو پلا رہے ہیں۔ ہم روزانہ پانچ ہزار لوگوں کی ویکسینیشن کرتے ہیں۔''
شمالی وزیرستان میں 15 جون کو 'ضرب عضب' آپریشن شروع کیا گیا تھا جس کے بعد گزشتہ پیر کو کرفیو میں نرمی کی گئی تاکہ وہاں سے لوگ نقل مکانی شروع کر سکیں۔
نقل مکانی کرنے والے افراد کو طبی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کیمپ بھی بنائے گئے ہیں جب کہ عالمی ادارہ برائے خوراک 'ڈبلیو ایف پی' کی طرف سے راشن کی فراہمی بھی جاری ہے۔