رسائی کے لنکس

پاکستان درپردہ لڑائیوں میں ملوث نہیں: جنرل باجوہ


جنرل میک ماسٹر نے پیر کو جنرل باجوہ سے ملاقات کی تھی
جنرل میک ماسٹر نے پیر کو جنرل باجوہ سے ملاقات کی تھی

تجزیہ کار حسن عسکری کا کہنا تھا کہ پاکستان اس ضمن میں اپنی کارکردگی سے متعلق دوسروں کو بظاہر قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاکستانی سرزمین سے درپردہ دہشت گردی کے الزامات کو مسترد کیا ہے۔

منگل کو فوج کے شعبہ تعلقات عامہ "آئی ایس پی آر" نے بتایا کہ ایک روز قبل جنرل باجوہ نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے امریکہ کے مشیر برائے قومی سلامتی لیفٹیننٹ جنرل ایچ آر میک ماسٹر سے گفتگو میں امریکی عہدیدار کو بتایا کہ پاکستان خود ریاستی سرپرستی میں ہونے والی دہشت گردی کا شکار ہے اور اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت دے کر کسی بھی طرح کی درپردہ جنگ نہیں کر رہا۔

پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت اور افغانستان دونوں ہی یہ الزامات عائد کرتے رہے ہیں کہ اسلام آباد اپنے ہاں موجود ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہیں کرتا جو ان دو ملکوں میں تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔

پاکستان ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتا آیا ہے کہ اس نے اپنی سرزمین پر تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی شروع کر رکھی ہے۔

جنرل میک ماسٹر نے پیر کو پاکستان کی عسکری و سیاسی قیادت سے ملاقاتوں میں دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا اعتراف تو کیا لیکن ساتھ ہی انھوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دہشت گردی کی تمام اشکال کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام آباد آنے سے قبل امریکی مشیر نے اتوار کو کابل کا دورہ کیا تھا جہاں ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو میں انھوں نے یہ کہا تھا کہ پاکستان کے مفاد میں یہی ہے کہ وہ درپردہ تشدد کی کارروائیوں کی بجائے افغانستان اور دیگر جگہوں پر سفارتکاری کی راہ اپنائے۔

پاک افغان سرحدی علاقے عسکریت پسندوں کی آماجگاہ رہے ہیں (فائل فوٹو)
پاک افغان سرحدی علاقے عسکریت پسندوں کی آماجگاہ رہے ہیں (فائل فوٹو)

سلامتی اور بین الاقوامی امور کے ماہر پروفیسر حسن عسکری رضوی کہتے ہیں کہ یقین دہانیوں کے باوجود اگر پاکستان پر درپردہ جنگ میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے ہیں تو اس کی وجہ افغانستان میں استحکام کا نہ ہونا ہے جس کا ذمہ دار ان کے بقول افغانستان اور کسی حد تک امریکہ، پاکستان کو سمجھتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس ضمن میں اپنی کارکردگی سے متعلق دوسروں کو بظاہر قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے۔

"پاکستان کی ناکامی میرے نزدیک یہ ہے کہ وہ قائل نہیں کر سکا کہ افغان سرحد پر (دہشت گردوں کی) آمدورفت دوطرفہ ہے۔ پاکستان کے لوگ (عسکریت پسند) اُدھر بیٹھے ہوئے ہیں، اُن (افغانستان) کے لوگ ادھر آتے ہیں تو جب تک تعاون نہیں ہوگا اس پر قابو نہیں پایا جاسکتا۔"

حال ہی میں پاکستان نے افغانستان کے ساتھ سرحد پر اپنی جانب باڑ لگانے کا کام شروع کیا اور ایک روز قبل ہی فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ موثر نگرانی اور سرحد کے آر پار نقل و حرکت کو قواعد میں لانے کے لیے دیگر موثر اقدام بھی کیے جا رہے ہیں۔

منگل کو امریکی مشیر قومی سلامتی میک ماسٹر نے نئی دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور اپنے ہم منصب اجیت دوول سے ملاقاتیں کیں جس میں مختلف شعبوں میں تعاون کے علاوہ علاقائی سلامتی کے امور بھی زیر بحث آئے۔ بھارت امریکہ سے مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنے ہاں موجود ان دہشت گرد گروپوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے دباؤ ڈالے جو بھارت میں مبینہ طور پر دہشت گرد کارروائیاں کرتے ہیں۔

اسلام آباد ان بھارتی دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے نئی دہلی پر پاکستان مخالف سرگرمیوں کی حمایت کرنے کا الزام عائد کرتا ہے جسے بھارت رد کرتا ہے۔

تجزیہ کار حسن عسکری کے نزدیک بھارت کے تحفظات کی بڑی وجہ پاکستان میں جماعت الدعوۃ کی موجودگی ہے۔

حافظ سعید (فائل فوٹو)
حافظ سعید (فائل فوٹو)

"جماعت الدعوۃ نے خود کو اتنا نمایاں کیا ہوا ہے پاکستان میں کہ حکومت یا آرمی چیف کچھ بھی کہتے رہیں ان کی بات کو قبول نہیں کیا جائے گا۔۔۔یا تو جماعت الدعوۃ اپنی موجودگی کو کم کرے ورنہ کافی شواہد ہیں جس پر امریکہ اور بھارت کو شکایات ہیں کہ یہ یہاں کی سرگرم تنظیم ہے۔"

بھارت یہ الزام ہے کہ جماعت الدعوۃ دراصل لشکر طیبہ کی ہی دوسری شکل ہے جو نومبر 2008ء میں ممبئی دہشت گرد حملوں میں ملوث تھی۔

رواں سال کے اوائل میں ہی پاکستان نے جماعت الدعوۃ کے سربراہ حافظ سعید کو نظر بند کر دیا تھا جب کہ اس جماعت کو ان تنظیموں میں شامل کر دیا گیا جن کی سرگرمیوں پر حکام کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں۔

امریکہ اور اقوام متحدہ کی طرف سے جماعت الدعوۃ پر تعزیرات عائد ہیں جب کہ امریکہ نے حافظ سعید کی گرفتاری پر ایک کروڑ ڈالر کے انعام کا بھی اعلان کر رکھا ہے۔

پاکستانی حکام کا موقف ہے کہ وہ بین الاقوامی ذمہ داریوں کے تحت جماعت الدعوۃ کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور اس کے خلاف اقدام کیے جائیں گے۔

XS
SM
MD
LG