پاکستان نے کہا ہے کہ سیاسی و اقتصادی مقاصد کے لیے بھارت اور امریکہ کے مابین جوہری سمجھوتے پر عملدرآمد سے جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن بری طرح متاثر ہو گا۔
یہ بات پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز نے امریکی صدر کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران ہونے والے معاہدوں اور بیانات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہی۔
دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اپنی قومی سلامتی کے مفادات کے تحفظ کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان سمجھتا ہے کہ ان معاہدوں کے اس کی سلامتی پر طویل المدت اثرات مرتب ہوں گے۔
رواں ہفتے امریکہ کے صدر براک اوباما کے تین روزہ دورہ بھارت کے دوران دونوں ملکوں میں سول جوہری معاہدے کی راہ میں حائل اختلافات دور کرنے میں خاصی پیش رفت ہوئی تھی۔ مزید برآں بھارت کو جوہری سپلائرز گروپ کی رکنیت کے علاوہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن بنانے کے بارے میں بھی امریکی رہنما نے حوصلہ افزا بیان دیے تھے۔
پاکستانی مشیر خارجہ کا کہنا تھا کہ "ایسا ملک جو جموں و کشمیر کے تنازع جیسے عالمی اور سلامتی کے معاملے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتا ہے، کسی بھی طور سلامتی کونسل میں خصوصی حیثیت کا حقدار نہیں ہے۔"
سرتاج عزیز نے کہا کہ پاکستان بھارت کو رکنیت دینے کے لیے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی طرف سے کسی ملک کو خصوصی استثنیٰ دینے کی بھی مخالفت کرتا ہے۔ ان کے بقول یہ اقدام جنوبی ایشیا کے پہلے سے حساس اسٹریٹجک استحکام کے لیے مضر ہوگا اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی ساکھ کو متاثر کرے گا۔
بیان میں سرتاج عزیز نے ایک بار پھر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک اس ضمن میں عالمی برادری کا ایک اہم شراکت دار ہے اور وہ دوسروں سے بھی یہی توقع کرتا ہے کہ وہ اس عالمی خطرے سے نمٹنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
انھوں نے بھارت سے مطالبہ کیا کہ وہ 2007ء میں سمجھوتہ ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے۔
سرتاج عزیز کے اس بیان پر بھارت کی طرف سے تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔