حزب مخالف کی جانب سے پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیرقانون رانا ثنا اللہ کو سات جنوری تک مستعفی ہونے کی مہلت دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ بصورت دیگر احتجاجی لائحہ عمل تیار کیا جائے گا۔
یہ بات پاکستان عوامی تحریک کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس کے ہفتہ کو لاہور میں منقد ہونے والے اجلاس کے مشترکہ اعلامیے میں کہی گئی۔
کانفرنس میں حزب مخالف کی دونوں بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف کے علاوہ، عوامی مسلم لیگ، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اور پاک سر زمین پارٹی کے راہنماؤں نے شرکت کی۔
اجلاس میں 2014ء میں لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف پولیس آپریشن میں ہلاکتوں کا الزام حکومت پر عائد کرتے ہوئے ان استعفوں کا مطالبہ کیا گیا۔
اس کارروائی میں 14 افراد ہلاک اور 100 کے لگ بھگ زخمی ہوئے تھے۔ کانفرنس کے اعلامیے میں دعویٰ کیا گیا کہ مسلم لیگ ن اس سانحے میں براہ راست ملوث تھی۔ تاہم حکومتی عہدیداران ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔
مزید برآں کانفرنس میں حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ قانون سازوں کے لیے حلف نامے میں ختم نبوت کی شق کی تبدیلی کے اصل ذمہ داروں کو بھی سخت سزا دی جائے۔
پیپلزپارٹی کے ایک سینیئر راہنما اور سابق وفاقی وزیر قمر زمان کائرہ نے کانفرنس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ شرکا کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ سپریم کورٹ ان معاملات کا از خود نوٹس لے اور مشترکہ تحقیقاتی کمیٹی بنائی جائے تاکہ غیرجانبداری کو یقینی بنایا جا سکے۔
" اے پی سی یہ مطالبہ کرتی ہے کہ جسٹس باقر نجفی کمیشن نے شہباز شریف، رانا ثنااللہ کو سانحہ ماڈل ٹاؤن کے قتل عام اور اس کی منصوبہ بندی کا ذمہ دار ٹھہرا دیا ہے۔ لہذا وہ سانحہ میں ملوث ہیں۔ ان کے دیگر حکومتی حورای جملہ شریک ملزمان اور بیورکریٹس 7 جنوری 2018 سے پہلے مستعفیٰ ہو جائیں۔ اے پی سی متفقہ طور پر 31 دسمبر کی ڈیڈ لائن میں 7 جنوری تک کی توسیع کرتی ہے۔ اگر قتل کے ملزمان کے 7 جنوری تک استعفے نا آئے تو اسٹیرنگ کمیٹی اسی دن 7 جنوری کو اجلاس منعقد کرے گی اور آئند کے احتجاجی لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔"
پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ماڈل ٹاؤن کے واقعے نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک جگہ متحد کیا ہے اور یہ جماعتیں پوری طرح سے فوج، عدلیہ اور ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کانفرنس میں جن نقاط پر اتفاق ہوا اگر ان پر عملدرآمد نہ کیا گیا تو پھر حکومت کے خلاف بھرپور احتجاجی تحریک بھی چلائی جائے گی۔