پاکستانی صدر کے ترجمان اور ملک کی فوج نے ان اطلاعات کو ’’بے بنیاد‘‘ قرار دے کر مسترد کر دیا ہے کہ القاعدہ کے رہنما اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کے وقت صدر آصف علی زرداری نے بری افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ٹیلی فون کرکے بتایا تھا کہ یہ کارروائی اُن کی اجازت سے کی جا رہی ہے۔
سول و عسکری قائدین سے متعلق یہ اطلاعات ایسے وقت سامنے آئی تھیں جب واشنگٹن کو بھیجے گئے متنازع خط یا ’میمو‘ کے مرکزی گواہ پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے اس اسکینڈل کے بارے میں شواہد اکھٹا کرنے والے عدالتی کمیشن کے سامنے اس ہی نوعیت کا دعویٰ کیا تھا۔
لیکن صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے اپنے مختصر بیان میں کہا ہے کہ ’’میڈیا کے ایک حصے میں شائع ہونے والی خبریں ... بالکل جھوٹ ہیں۔‘‘
پاکستانی فوج کے شعبہء تعلقات عامہ ’آئی ایس پی آر‘ کی طرف سے جاری ہونے والے بیان میں کہا ہے کہ ’’یکم اور 2 مئی 2011ء کی درمیانی شب صدر (زرداری) اور چیف آف آرمی اسٹاف (جنرل کیانی) کے درمیان فون پر کوئی گفتگو نہیں ہوئی۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ عسکری قیادت نے گزشتہ سال ایبٹ آباد آپریشن کے بعد بلائے گئے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس اور اس واقعہ کی تحقیقات کرنے والے کمیشن کو بھی اس موضوع پر بریفنگ دے چکی ہے۔ ’’اس میں مزید اضافے کے لیے کچھ نہیں ہے۔‘‘
اُدھر مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق منصور اعجاز نے صدارتی ترجمان اور آئی ایس پی آر کے بیانات پر اپنے فوری ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں کی جانب سے تردید ’’مفروضوں‘‘ کی بنیاد پر کی گئی ہے۔
انگریزی اخبار ’’ایکسپریس ٹربیون‘‘ کے مطابق امریکی شہری نے اپنی وضاحتی ای میل میں کہا ہے کہ اُنھوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ صدر زرداری اور جنرل کیانی کے درمیان براہ راست رابطہ ہوا، بلکہ اُنھوں نے دونوں کے دفاتر کے مابین رابطوں کا ذکر کیا ہے۔
ہیلی کاپٹر بردار امریکی کمانڈروز نے گزشتہ سال 2 مئی کو پاکستان کے شمالی شہر ایبٹ آباد میں خفیہ آپریشن کرکے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا اور اُس کی لاش اپنے ساتھ لے گئے تھے جس کو بعد ازاں سمندر برد کر دیا گیا۔