رسائی کے لنکس

پاکستانی حکومت امریکہ سے غیر مشروط معافی طلب کرے


امریکہ اور نیٹو کے ساتھ اشتراک عمل کی نئی شرائط منگل کو پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کردی گئی ہیں جن میں سلالہ چیک پوسٹ پر حملے میں 24 پاکستانی فوجیوں کی ہلاکت پر امریکہ سے غیر مشروط معافی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

یہ سفارشات پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے چیئرمین سینیٹر رضا ربانی نے سینیٹ اور قومی اسمبلی کے مشترکہ اجلاس میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ اب یہ پارلیمان کا اختیار ہے کہ وہ چاہے تو ان میں ترامیم کر کے ان کی منظوری دے یا پھر انھیں مسترد کر دے۔

’’حکومتِ پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اس بلااشتعال کارروائی پر امریکہ سے غیر مشروط معافی مانگنے کا کہے۔‘‘

امریکہ کے ساتھ اشتراک عمل سے متعلق رہنما اصولوں پر مبنی مسودے میں امریکہ سے پاکستان میں اپنی سرگرمیوں پر نظرِ ثانی کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے۔ تاہم اس میں نیٹو کی سپلائی لائن کی مشروط بحالی کا واضح اشارہ بھی دیا گیا ہے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کی سرحدوں کے اندر ڈرون حملوں کا سلسلہ بند کیا جائے، عسکریت پسندوں کے تعاقب میں غیر ملکی افواج کو پاکستانی حدود میں داخلے کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔

’’اس امر کو تسلیم کرنے کی ضرورت ہے کہ ڈرون حملے غیر مفید ہیں جن سے قیمتی جانیں ضائع اور املاک کو نقصان پہنچتا ہے، مقامی آبادی میں شدت پسندی کے رجحانات میں اضافہ ہوتا ہے، دہشت گردوں کی حمایت بڑھتی ہے اور امریکہ مخالف جذبات بھڑکتے ہیں۔‘‘

مزید برآں مجوزہ سفارشات میں مہمند ایجنسی میں کیے گئے حملے کے ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچانے اور اس یقین دہانی کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ مستقبل میں امریکہ اور نیٹو پاکستان کی سالمیت کے خلاف ایسے حملوں سے ہر ممکن اجتناب کرنے کے اقدامات کریں گے۔

’’پاکستان کے فوجی اڈوں اور فضائی حدود کے استعمال کی اجازت کے لیے پارلیمان کی منظوری درکار ہوگی۔‘‘

نیٹو سپلائی لائن سے متعلق معاہدے کی شرائط کا مفصل ازسر نو جائزہ لینے کی سفارش کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان قافلوں کی پاکستان میں داخلے اور اخراج کے وقت سخت چیکنگ کی جائے۔ مزید برآں 50 فیصد نیٹو کے کنٹینرز کی ترسیل پاکستان ریلوے کے ذریعے کرنے کی بھی سفارش کی گئی ہے۔

سینیٹر رضا ربانی
سینیٹر رضا ربانی

’’پاکستان کے راستے سے درآمدی اشیاء کی (نیٹو کو) ترسیل پر محصولات اور دیگر چارجز لگائے جائیں تاکہ اس رقم کو شاہراہوں کے ڈھانچے اور ان کی مرمت کے لیے استعمال کیا جاسکے۔ یہ پیسہ خصوصی طور پر کراچی سے طورخم اور کراچی سے چمن تک کی سڑکوں کے ڈھانچے کو اچھی حالت میں رکھنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔‘‘

سینیٹ کے چیئرمین نیئر حسین بخاری نے پارلیمان کا مشرکہ اجلاس ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ مجوزہ سفارشات پر باضابطہ بحث کا آغاز پیر کو ہوگا۔

لیکن ناقدین اس مجوزہ مسودے میں تضادات اور بعض مبہم شقوں پرتعجب کا اظہار کررہے ہیں۔

وزارتِ خارجہ اور مسلح افواج کے ساتھ صلاح ومشوروں کے بعد مرتب کردہ 16 بنیادی اور24 ذیلی سفارشات پر مشتمل اس دستاویز میں بظاہر امریکہ اور نیٹو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان کی حدود میں ’’کسی بھی طرح کی اعلانیہ یا خفیہ کارروائیاں برداشت نہیں کی جانی چاہیئں۔‘‘

تاہم مسودے میں شامل ایک دوسری شق اس کی واضح طور پرنفی کرتی ہے۔ ’’غیر ملکی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کی پاکستان میں موجودگی اور اُن کی تعداد کے بارے میں قبل از وقت اجازت اورشفافیت ہونی چاہیئے۔‘‘

یہ تجویز بظاہر اُن الزامات کے تناظر میں پیش کی گئی ہے کہ حالیہ برسوں میں پاکستان میں غیر ملکی جاسوس اداروں خصوصاً امریکی سی آئی اے کی خفیہ سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے۔

ان الزامات میں گزشتہ سال کے اوائل میں اُس وقت شدت آگئی جب ’سی آئی اے‘ کے لیے نجی حیثیت میں کام کرنے والے امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں دو پاکستانیوں کو گولیاں مار کر ہلاک کر دیا۔

قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف چودھری نثار علی خان نےمجوزہ مسودے میں تضادات پر تنقید اورتحفظات کا اظہارکرتے ہوئے انھیں ’’حیران کن‘‘ قرار دیا۔

’’کونسا آزاد اور خود مختار ملک بیرونی، بین الاقوامی سکیورٹی ایجنسیوں کو اپنے ملک میں کام کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ کیا یہ کام ہماری اپنی سکیورٹی ایجنسیوں کا نہیں ہے؟ اب یہ چاہتے ہیں کہ ہم یہ اجازت دے دیں تاکہ خدانخواستہ کل ایک اور ریمنڈ ڈیوس جیسا واقعہ ہو تو وہ کہیں گے اس کی تو پارلیمنٹ منظوری دے چکا ہے۔ اگر اس قرارداد پر عمل ہوا تو کل ہر غلط کام پارلیمان کے ذمہ ڈالا جائے گا۔‘‘

حزب اختلاف کے ان تحفظات پر اپنے ردعمل میں وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے اجلاس کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خارجہ پالیسی سے متعلق سفارشات پر پارلیمان کی زیر نگرانی مرتب کرنا پیپلز پارٹی اوراس کے اتحادیوں کی ایک ’’انتہائی سنجیدہ‘‘ کوشش ہے۔ ’’اور یہاں پہ اپوزیشن سے بھی درخواست ہوگی اور ان کے ساتھ ہماری بات چیت چلتی رہے گی کہ پاکستان کے قومی مفاد میں دنیا کو ایک متحدہ پیغام دیا جاسکے۔‘‘

نومبر 2011ء میں افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں نیٹو کے فضائی حملے پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان نے امریکہ اور نیٹو کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون معطل کر دیا تھا۔

امریکی قیادت سلالہ حملوں کو ’’غیر ارادی‘‘ قرار دے کر ان میں ہونے والے جانی نقصانات پر افسوس کا اظہار کر چکی ہے۔

اس فضائی حملے پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان نے فوری طور پر اُس کی سرزمین سے گزرنے والی افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سپلائی روک دی تھی جبکہ بلوچستان میں امریکہ کے زیر استعمال شمسی ائیر بیس کو بھی خالی کرا لیا گیا۔ اس کے علاوہ افغانستان کے مستقبل کے بارے میں جرمنی کے شہر بون میں ہونے والی بین الاقوامی کانفرنس کا بھی پاکستان نے بائیکاٹ کیا تھا۔

وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے امریکہ سے تعلقات کی بحالی اور مستقبل کے تعلقات کی سمت کا تعین کرنے کے لیے سفارشات کی تیاری کا کام پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کو سونپا تھا۔ کمیٹی نے باہمی مشاورت کے کئی اجلاسوں اور وزارت خارجہ و مسلح افواج سے مشاورت کے بعد مجوزہ سفارشات جنوری میں وزیراعظم کو بھجوا دی تھیں جنہیں منگل کو بحث کے لیے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا۔

صدر آصف علی زرداری نے 17 مارچ کو نئے پارلیمانی سال کے آغاز پرسینیٹ اور قومی اسمبلی کےمشترکہ اجلاس سے سالانہ خطاب کرتے ہوئے 2011ء کو پاک امریکہ تعلقات کے لیے چیلنجوں کا سال قرار دیا تھا۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔

’’ہم امریکہ کے ساتھ باہمی مفاد اور عزت و احترام پر مبنی بامقصد تعلقات قائم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔‘‘

XS
SM
MD
LG