اسلام آباد —
نئے منتخب وزیر میاں نواز شریف کے اتحادی قوم پرست پختون رہنما محمود خان اچکزئی نے بدھ کو قومی اسمبلی میں کہا کہ سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات میں شامل ججوں، وکلاء اور دیگر ساتھیوں کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئے۔
بدھ کو وزیراعظم کے انتخاب کے فوراً بعد اپنے خطاب میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے یہ بھی تجویز دی کہ ایوان زیریں ’’سخت انداز‘‘ میں ان ججوں کی بھی مذمت کرے جنھوں نے آمر کے غیر آئینی اقدام کو آئینی قرار دیا جبکہ حلف نا اٹھانے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔
’’ 1999ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانا ایک آدمی کا کام نہیں۔ ایک آدمی کیا کر سکتا ہے۔ وکلاء، صحافیوں، ججوں، سیاستدانوں نے اس کی مدد کی ہے۔ اگر کوئی کارروائی ہونی ہے تو یہ نہیں کہ ایک آدمی کے خلاف بلکہ تمام کے خلاف ہونا چاہئے۔ ورنہ یہ ڈراما بند کیا جائے۔‘‘
محمود خان اچکزئی کی طرف سے یہ تجویز ایک ایسے وقت میں آئی جب سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں اور ملک کے آئین کے تحت یہ کارروائی صرف وفاقی حکومت ہی شروع کر سکتی ہے۔
اچکزئی نے نئے منتخب اراکین سے کہا کہ ماضی کے تلخ واقعات کو فراموش کرکے ان کے مطابق ملک کی بہتری کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے عوام کو ماضی کی حقیقتوں سے آگاہ کرنے کے لئے کمیشنز کے قیام کی بھی تجویز دی۔
انہوں نے اراکین اسمبلی سے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر آرمی چیف کے عہدے سے مستعفی ہونے والے جنرل جہانگیر کرامت کو بھی ان کے اس عمل پر خراج تحسین پیش کیا جائے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن فارق ستار نے ایون زیریں میں اپنے خطاب میں کراچی میں بدامنی کے تدارک کے لئے فوری اور موثر اقدامات پر زود دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی اور استحکام کا انحصار شہر کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے منسلک ہے۔
’’جب آج ہم خوشیاں منا رہے ہیں اس تاریخی موقع پر تو کراچی میں آج بھی کئی بے گناہ شہریوں کو قتل کیا گیا۔ آئین کی بالادستی کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ اگر ان حالات نے انارکی کی شکل اختیار کر لی تو پھر جمہوریت اور پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک بہت بڑا سوال اور چیلنج ہے۔‘‘
مذہبی سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان اور شدت پسندی کے خاتمے کے لئے قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے اور ان کی محرومیوں کو دور کیا جائے۔
’’وہ نوجوان سر اٹھا رہا ہے جو معاشرے میں مادر پدر آزاد نظام کی بات کرتا ہے۔ اپنے خیال میں آزادی کی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ بھی تبدیلی کی بات کرتا ہے جو کہتا ہے کہ شریعت کے حوالے سے میری تشنگی پوری نہیں کی جارہی۔ یہ آئین میری ضرورتیں پوری نہیں کرتا۔ تو جب آپ اس کی تشنگی کو پورا نہیں کرتے تو وہ اسلحہ اٹھا لیتا ہے۔ کیا اس نوجوان کی تبدیلی کی خواہشات کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے گا؟۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز سمیت 40 ہزار پاکستانی شہری ہلاک ہوئے جبکہ ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھی کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
بدھ کو وزیراعظم کے انتخاب کے فوراً بعد اپنے خطاب میں پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ نے یہ بھی تجویز دی کہ ایوان زیریں ’’سخت انداز‘‘ میں ان ججوں کی بھی مذمت کرے جنھوں نے آمر کے غیر آئینی اقدام کو آئینی قرار دیا جبکہ حلف نا اٹھانے والوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہئے۔
’’ 1999ء میں میاں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹانا ایک آدمی کا کام نہیں۔ ایک آدمی کیا کر سکتا ہے۔ وکلاء، صحافیوں، ججوں، سیاستدانوں نے اس کی مدد کی ہے۔ اگر کوئی کارروائی ہونی ہے تو یہ نہیں کہ ایک آدمی کے خلاف بلکہ تمام کے خلاف ہونا چاہئے۔ ورنہ یہ ڈراما بند کیا جائے۔‘‘
محمود خان اچکزئی کی طرف سے یہ تجویز ایک ایسے وقت میں آئی جب سپریم کورٹ میں پرویز مشرف کے خلاف آئین توڑنے کے الزامات پر غداری کا مقدمہ چلانے کی درخواستیں زیر سماعت ہیں اور ملک کے آئین کے تحت یہ کارروائی صرف وفاقی حکومت ہی شروع کر سکتی ہے۔
اچکزئی نے نئے منتخب اراکین سے کہا کہ ماضی کے تلخ واقعات کو فراموش کرکے ان کے مطابق ملک کی بہتری کے لئے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ تاہم انہوں نے عوام کو ماضی کی حقیقتوں سے آگاہ کرنے کے لئے کمیشنز کے قیام کی بھی تجویز دی۔
انہوں نے اراکین اسمبلی سے کہا کہ وزیراعظم کی ہدایت پر آرمی چیف کے عہدے سے مستعفی ہونے والے جنرل جہانگیر کرامت کو بھی ان کے اس عمل پر خراج تحسین پیش کیا جائے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے رکن فارق ستار نے ایون زیریں میں اپنے خطاب میں کراچی میں بدامنی کے تدارک کے لئے فوری اور موثر اقدامات پر زود دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی ترقی اور استحکام کا انحصار شہر کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے منسلک ہے۔
’’جب آج ہم خوشیاں منا رہے ہیں اس تاریخی موقع پر تو کراچی میں آج بھی کئی بے گناہ شہریوں کو قتل کیا گیا۔ آئین کی بالادستی کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ قانون کی حکمرانی کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں۔ اگر ان حالات نے انارکی کی شکل اختیار کر لی تو پھر جمہوریت اور پاکستان کے مستقبل کے لئے ایک بہت بڑا سوال اور چیلنج ہے۔‘‘
مذہبی سیاسی جماعت جمیعت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ملک میں امن و امان اور شدت پسندی کے خاتمے کے لئے قبائلی علاقوں میں جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی کی بجائے مذاکرات کا راستہ اپنایا جائے اور ان کی محرومیوں کو دور کیا جائے۔
’’وہ نوجوان سر اٹھا رہا ہے جو معاشرے میں مادر پدر آزاد نظام کی بات کرتا ہے۔ اپنے خیال میں آزادی کی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ بھی تبدیلی کی بات کرتا ہے جو کہتا ہے کہ شریعت کے حوالے سے میری تشنگی پوری نہیں کی جارہی۔ یہ آئین میری ضرورتیں پوری نہیں کرتا۔ تو جب آپ اس کی تشنگی کو پورا نہیں کرتے تو وہ اسلحہ اٹھا لیتا ہے۔ کیا اس نوجوان کی تبدیلی کی خواہشات کو احترام کی نظر سے دیکھا جائے گا؟۔‘‘
گزشتہ ایک دہائی میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سکیورٹی فورسز سمیت 40 ہزار پاکستانی شہری ہلاک ہوئے جبکہ ملک کی معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھی کہہ چکے ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے ایک متفقہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔