رسائی کے لنکس

پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بدھ کو طلب، معاشی اور سیاسی صورتِ حال ایجنڈے میں شامل


پاکستان کی سیاسی اور معاشی صورتِ حال پر بحث کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بدھ کو طلب کر لیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ کا یہ مشترکہ اجلاس بدھ کی سہ پہر منعقد ہوگا۔ پہلے یہ اجلاس 10 اپریل کو ہونا تھا لیکن اب یہ 22 مارچ کو ہوگا۔ مبصرین اس اجلاس کو ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال میں اہمیت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

قبل ازیں وزیرِاعظم شہباز شریف کی سربراہی میں پیر کو رات دیر تک اتحادی جماعتوں کے رہنماؤں کا اجلاس ہوا۔

اس اجلاس کے بعد جاری ایک اعلامیے میں کہا گیا کہ اتحادی حکومت کے رہنما تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی ایما پر پولیس اور رینجرز پر حملوں اور تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔

اعلامیے کے مطابق یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی صورتِ حال اس قدر گھمبیر ہوچکی ہے کہ اس سے نکلنے کا کوئی راستہ دیکھائی نہیں دیتا ہے۔ حکومتی اتحاد کے اعلامیے سے ثابت ہوتا ہے کہ حالات میں ٹھہراؤ کے بجائے آنے والے دنوں میں مزید تلخیاں پیدا ہوں گی۔

تجزیہ کار حسن عسکری کہتے ہیں کہ حکومتی اتحادی جماعتوں کے اجلاس کا اعلامیہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان الزام و جوابی الزام کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ملک کی سیاست میں ٹھہراؤ نہیں آئے گا بلکہ مزید تلخیاں بڑھیں گی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت چاہتی ہے کہ ملک میں الیکشن ایک ساتھ ہوں اور اس کے جواز کے طور پر جن مسائل کی نشاندہی کی جا رہی ہے وہ آئندہ چند ماہ میں بھی حل ہوتے دیکھائی نہیں دے رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ اس صورت میں اگر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات نہیں ہوتے تو رواں سال اکتوبر میں بھی عام انتخابات ہوتے ہوئے نہیں دیکھائی دے رہے۔

حسن عسکری نے کہا کہ حکومت اپنے سیاسی ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں قرارداد منظور کرا سکتی ہے۔

ان کے بقول چوں کہ پی ٹی آئی کے اراکین قومی اسمبلی سے مستعفی ہو چکے ہیں اور وہ صرف ایوانِ بالا میں نمائندگی رکھتے ہیں تو حکومت کو کسی قرار داد یا سادہ اکثریت سے قانون سازی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے سیاسی انتشار اور ملکی حالات میں بہتری کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا ہے۔

دوسری جانب تجزیہ کار سجاد میر کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں رونما ہونے والے واقعات اور پیدا شدہ صورتِ حال یہ پیغام دے رہی ہے کہ ریاست نے فیصلہ کرلیا ہے کہ بس بہت ہوگیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان کے بیانات بھی اسی بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ سخت اقدام کے علاوہ کوئی راستہ باقی نہیں بچا ہے۔

ان کے بقول اسی بنا پر سابق وزیرِاعظم بار بار کہہ رہے ہیں کہ انہیں قتل کیا جاسکتا ہے یعنی وہ خود کہہ رہے ہیں کہ صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ پولیس پر پیٹرول بم سے حملہ دراصل ریاست سے لڑائی ہے اور عمران خان نے خود جواز فراہم کردیے ہیں کہ ان کے خلاف سخت اقدام اٹھائے جائیں۔

سجاد میر نے کہا کہ فوج، عدلیہ، میڈیا کے پاس گھمبیر سیاسی صورتِ حال سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے اور پارلیمنٹ سے بھی کوئی حل نکلتا دیکھائی نہیں دیتا ہے۔

ان کے بقول سیاسی رہنماؤں کے درمیان مذاکرات ہوتے ہوئے نظر نہیں آتے اور الیکشن سے بھی حالات مزید خراب ہوتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

'پاکستان کے موجودہ حالات کی وجہ عدلیہ اور فوج کا گٹھ جوڑ ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:06:02 0:00

ایسے میں صورتِ حال سے نکلنے کا کیا راستہ ہے اور حکومت کو کیا کرنا چاہیے؟ اس بارے میں حسن عسکری کہتے ہیں کہ سیاسی صورتِ حال کا حل آئین اور عدلیہ کے فیصلوں پر عمل درآمد میں ہے۔ لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت اس طرف جاتی ہوئی دیکھائی نہیں دے رہی ہے۔

ان کے بقول غیر یقینی کی صورتِ حال میں ملک کے حالات میں بہتری ممکن نہیں ہے اور ایسے میں جمہوریت کسی حادثے کا شکار ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی میں جب بھی سیاسی تنازعے کے سبب ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی تو اس کا فائدہ جمہوریت کو نقصان پہنچا کر اٹھایا گیا اور ایسا اب بھی ہوسکتا ہے۔

سجاد میر کہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ماحول میں مذاکرات بھی نظر نہیں آرہے ہیں اور اگر پی ٹی آئی کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے تو اس سے بھی حالات مزید خراب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ماضی کے تجربے کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جب فوج کوئی فیصلہ کرلیتی ہے تو عدلیہ اور دیگر ادارے ایک صفحے پر آجاتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ حکومت بھی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں سخت فیصلے لے تاکہ ان فیصلوں کو اسٹیبلشمنٹ کی بجائے منتخب نمائندوں کا فیصلہ قرار دیا جائے۔

XS
SM
MD
LG