بھارت کی پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ نے پنجاب پولیس پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ خالصتان کے حامی علیحدگی پسند گروپ 'وارث پنجاب دے' کے سربراہ امرت پال سنگھ کے خلاف آپریشن کی رپورٹ پیش کرے۔
بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کے مطابق عدالت نے پنجاب حکومت سے استفسار کیا کہ "آپ کے پاس 80 ہزار اہلکار ہیں۔ وہ کیا کر رہے ہیں۔ کیسے امرت پال سنگھ فرار ہوگئے؟"
عدالت نے ریمارکس دیے کہ یہ ریاستی پولیس کی انٹیلی جنس ناکامی ہے۔
عدالت کی جانب سے یہ ریمارکس ایسے موقع پر سامنے آئے ہیں جب پنجاب پولیس امرت پال سنگھ کی گرفتاری کی کوشش کر رہی ہے۔
پولیس نے فروری میں امرت پال سنگھ کے ایک معاون لو پریت سنگھ کو گرفتار کیا تھا۔ ان کو رہا کرانے کے لیے امرت پال اور ان کے ساتھیوں نے 23 فروری کو اجنالہ تھانے پر حملہ کیا تھا۔ امرت پال اور پولیس کے درمیان مذاکرات کے بعد پولیس نے لو پریت کو رہا کر دیا تھا۔
پولیس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ تھانے تک پہنچے والے اپنے ہاتھوں میں سکھ مذہب کی مقدس کتاب لیے ہوئے تھے جس کے احترام میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق اس کے بعد ہی سے پولیس امرت پال اور ان کے ساتھیوں کو گرفتار کرنے کی تیاری کر رہی تھی۔
منگل کو پنجاب پولیس نے عدالت کو بتایا ہے کہ امرت پال سنگھ کے خلاف ہفتے کو کارروائی شروع کی گئی اور اس سلسلے میں ان کے 120 حامیوں کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔
ہفتے کو پولیس نے ضلع جالندھر میں ایک گاڑی روکی اور امرت پال کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن پولیس کے مطابق وہ چکمہ دے کر ڈرامائی انداز میں فرار ہو گئے۔ پولیس نے انہیں مفرور قرار دے دیا ہے۔
البتہ امرت پال کے والد ترسیم سنگھ نے دعویٰ کیا ہے کہ پولیس نے امرت پال کو گرفتار کر لیا ہے۔ وہ ان کے فرار ہونے کے بارے میں غلط بیانی سے کام لے رہی ہے۔
انہوں نے اتوار کو مطالبہ کیا تھا کہ پولیس امرت پال کو عدالت میں پیش کرے تاکہ قانونی کارروائی آگے بڑھائی جا سکے۔ ان کے مطابق ان کے بیٹے نے تشدد کی کال نہیں دی تھی۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق ایک وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ پنجاب حکومت نے سماعت کے دوران عدالت کو بتایا کہ امرت پال سنگھ کے خلاف سخت قومی سلامتی ایکٹ (این ایس اے) لاگو کردیا گیا ہے۔
ادھر عدالت میں وارث پنجاب دے کے قانونی مشیر اور وکیل امان سنگھ کھارا کی جانب سے دائر درخواست میں یہ استدعا کی گئی ہے کہ امرت پال سنگھ کو مبینہ پولیس حراست سے 'رہا' کیا جائے۔
اس سے قبل کھارا نے پنجاب اینڈ ہریانہ ہائی کورٹ میں حبسِ بیجا کی رٹ پٹیشن دائر کی تھی اور یہ شبہ ظاہر کیا تھا کہ پولیس امرت پال کو جعلی مقابلے میں ہلاک کر دے گی۔
پنجاب کے بعض علاقوں میں پابندیوں میں توسیع
دوسری جانب بھارت کی ریاست پنجاب کی حکومت نے منگل کو ترن تارن، فیروزپور، موگا، سانگرور اور امرتسر کے اجنالہ سب ڈویژن اور موہالی کے کچھ علاقوں میں موبائل انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس کی معطلی میں جمعرات تک توسیع کردی ہے۔
محکمۂ داخلہ اور انصاف کے ایک حکم میں کہا گیا ہے کہ منگل کو ریاست کے باقی حصوں سے پابندیاں ہٹادی جائیں گی۔
واضح رہے کہ حکومت نے ہفتے کو امرت پال سنگھ اور ان کے تنظیم کے اراکین کے خلاف ایک بڑا کریک ڈاؤن شروع کیا تھا اور اس سلسلے میں مختلف پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔
پولیس نے امرت پال سنگھ کے چچا ہرجیت سنگھ کو بھی گرفتار کیا تھا جنہیں منگل کوریاست آسام کی ڈبروگڑھ سینٹرل جیل منتقل کیا گیا۔
انسپکٹر جنرل آف پولیس (ہیڈکوارٹرز) سکھ چین سنگھ گل نے پیر کو بتایا تھا کہ پنجاب پولیس کی جانب سے امرت پال سنگھ اور ان کے ساتھیوں کے خلاف اب تک چھ مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جن میں طبقات کے درمیان تفرقہ پیدا کرنے، اقدامِ قتل، پولیس اہلکاروں پر حملے اور ان کے کام میں رکاوٹ ڈالنے کی دفعات بھی شامل کی گئی ہیں۔
امریکہ میں بھارتی قونصلیٹ میں' توڑ پھوڑ'
ادھر خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' نے رپورٹ کیا کہ امرت پال سنگھ کے حامیوں کو امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں بھارتی قونصلیٹ میں توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس سے قبل لندن میں بھی سفارت خانے کے باہر بھی احتجاج دیکھنے میں آٰیا تھا۔
اے ایف پی کے مطابق آن لائن پوسٹ کی گئی ویڈیوز میں لوگوں کو قونصلیٹ کی عمارت کے باہر رکاوٹیں ہٹانے کے بعد قونصلیٹ کے دروازوں اور کھڑکیوں کو توڑتے ہوئے دیکھا گیا۔ اس کے علاوہ مظاہرین نے وہاں اسپرے کی مدد سے "فری امرت پال" بھی لکھا۔
بھارت نے اس واقعے پر امریکی محکمۂ خارجہ سمیت نئی دہلی میں امریکی سفارت خانے کے ساتھ معاملے کو اٹھاتے ہوئے "بھرپور احتجاج" کیا ہے۔
پیر کو بھارت کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ امریکی حکومت کو سفارتی نمائندوں کے تحفظ کی بنیادی ذمہ داری یاد دلائی گئی ہے۔ واشنگٹن کو کہا گیا کہ وہ ایسے واقعات کو روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرے۔
امریکی محکمۂ خارجہ کی جانب سے اس "توڑ پھوڑ" کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ وہ ان تنصیبات اور وہاں کام کرنے والے سفارت کاروں کی حفاظت کے لیے پرعزم ہے۔