رسائی کے لنکس

پاکستان نے نیب پر عائد دو کروڑ 87 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کر دیا


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کی حکومت نے امریکی اثاثہ جات ریکوری فرم براڈ شیٹ کو دو کروڑ 87 لاکھ ڈالر جرمانے کی ادائیگی کردی ہے۔

اس سے قبل جرمانے کی ادائیگی کے تنازع پر لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کو مشکلات کا سامنا تھا اور اطلاعات کے مطابق پاکستانی ہائی کمیشن کے بینک اکاؤنٹ منجمد کر دیے گئے تھے۔

ماہرین قانون قومی احتساب بیورو (نیب) کے اس عمل کو مجرمانہ غفلت قرار دیتے ہوئے تحقیقات کے لیے کمیشن کے قیام کا تقاضا کر رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ کے سوال پر نیب ترجمان کا کہنا ہے کہ احتساب بیورو کی موجودہ مینجمنٹ کا اس معاہدے اور قانونی چارہ جوئی کے اقدام سے کوئی تعلق نہیں بنتا بلکہ یہ تمام کاروائی گزشتہ ادوار میں ہوتی رہی ہے۔

لندن کی عدالت نے براڈ شیٹ کو نیب کی جانب سے واجب الادا جرمانے کی عدم ادائیگی پر لندن میں پاکستان ہائی کمیشن کے اکاؤنٹس سے 2 کروڑ 90 لاکھ ڈالرز ڈیبٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔

عدالت نے 2018 میں نیب کے خلاف 2 کروڑ ڈالر جرمانہ عائد کیا اور امریکی کمپنی کو جرمانہ ادا نہ کرنے پر دو سال میں 90 لاکھ ڈالر سود بھی شامل ہو گیا۔

تاہم پاکستانی حکام نے فیصلہ کیا ہے کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن سے لاکھوں ڈالر لینے کا برطانوی عدالتی حکم چیلنج کیا جائے گا۔

یاد رہے کہ پاکستان نے سابق فوجی حکمران پرویز مشرف کے دور میں نیب نے امریکی فرم براڈ شیٹ سے معاہدہ کیا تھا، جس کا مقصد بیرون ملک سو سے زائد پاکستانیوں کے اثاثوں کی معلومات اکٹھا کرنا تھا۔

یہ معاہدہ بعد ازاں 2003 میں ختم کر دیا گیا تھا جس پر امریکی فرم نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔

عالمی معاہدے کو یک طرفہ ختم کرنا جرمانے و سبکی کا باعث بنا

اس مقدمے سے آگاہی رکھنے والے قانونی ماہرین اور تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ نیب کی جانب سے برتی جانے والی کوتاہی پر ذمہ داران کا تعین کیا جانا چاہئے۔

اس مقدمے کی رپورٹنگ کرنے والے لندن میں مقیم پاکستانی صحافی مرتضی علی شاہ کہتے ہیں کہ پاکستانی قانونی ماہرین کی غلط آرا کے باعث پاکستان کو نہ صرف بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑا بلکہ عالمی سطح پر بدنامی کا بھی سامنا ہوا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان نے عدالت کے حکم پر عمل نہیں کیا اور جرمانے کی ادائیگی منجمند اکاؤنٹ سے ادا کی گئی اور ان کے بقول اس اقدام کے مستقبل میں بھی اثرات ہوں گے۔

نیب کا اسلام آباد آفس
نیب کا اسلام آباد آفس

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی حکومت اب تک اس مقدمے میں 50 ملین ڈالرز سے زائد کی رقم ادا کر چکی ہے جس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

مرتضی علی شاہ کہتے ہیں کہ یہ ایک عالمی معاہدہ تھا جو کہ یک طرفہ ختم نہیں کیا جا سکتا تھا، تاہم پاکستان نے اسے یک طرفہ طور پر ختم کر دیا۔

وہ کہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت کو اس مقدمے سے متعلق قانونی رائے دینے والوں کے خلاف کارروائی کرنی چاہئے جس کے باعث پاکستان کو بھاری جرمانہ اور عدالتی سبکی کا سامنا کرنا پڑا۔

برطانیہ میں وکالت سے منسلک بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ براڈ شیٹ کے مقدمے میں بقول ان کے غفلت نہیں بلکہ مجرمانہ نااہلی ثابت ہوئی ہے جس کی وجہ نیب کے معاملات میں پارلیمانی، عدالتی و ادارہ جاتی نگرانی کا نہ ہونا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انہوں نے کہا نیب نے یہ معاہدہ کرتے وقت نہ تو اٹارنی جنرل آفس سے مشاورت کی اور نہ ہی دفتر خارجہ یا ہائی کمیشن سے مدد لی گئی، بلکہ پیپرا قواعد کو نظر انداز کیا گیا۔

بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ پہلے رائج قواعد کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر ملکی فرم سے معاہدہ کیا گیا اور پھر اسے یک طرفہ طور ختم کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی حکم نہ ماننے کے باعث پاکستان کو اب عائد جرمانے اور ساتھ سود کی رقم ادا کرنا پڑی ہے۔

بینک اکاؤنٹ کا منجمد ہونا سفارتی ناکامی ہے

پاکستان نے رواں سال جولائی میں ثالثی کی اپیل کی تھی جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ عدالت نے قرار دیا تھا کہ پاکستان اور نیب نے براڈ شیٹ کے ساتھ اثاثوں کی بازیابی کے معاہدے پر عمل نہیں کیا تھا اور فیصلہ دیا کہ کمپنی ہرجانے کی حقدار ہے۔

مرتضی علی شاہ کہتے ہیں کہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن کے بینک اکاؤنٹ منجمند ہونا ایک بڑی سفارتی بدنامی ہے۔

ان کے بقول پاکستان نے بینک اکاؤنٹ منجمند ہونے سے بچنے کے لئے سفارتی استثنیٰ بھی مانگا، لیکن اسے مسترد کر دیا گیا اور ایسا پہلی مرتبہ ہے کہ پاکستان ہائی کمیشن کے بینک اکاؤنٹ عدالتی حکم پر منجمد کئے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ عدالت کا حکم نہ ماننے کے مستقبل میں خاصے اثرات سامنے آ سکتے ہیں اور عالمی معاہدوں کے وقت پاکستان کو اضافی شرائط کا سامنا ہو سکتا ہے۔

مرتضی علی شاہ نے بتایا کہ براڈ شیٹ نے اپنی واجب الاد رقم کے عوض سابق وزیراعظم نواز شریف کے خاندان کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی حوالگی کا دعوی کیا تھا جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ امریکی فرم نے اپنے دعوے میں کہا کہ ایون فیلڈ کے چار فلیٹس پاکستان کی حکومت کا اثاثہ ہیں جن کے ذریعے ان کی ادائیگی ہو سکتی ہے، تاہم عدالت نے ان کی اس استدا کو منظور نہیں کیا۔

نیب کا لاہور آفس
نیب کا لاہور آفس

بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ اداروں کو لامحدود اختیارات اور مادر پدر آزاد نہیں ہونا چاہئے اور یہ وقت ہے کہ نیب پر پارلیمانی اور عدالتی نگرانی کو لاگو کیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی ہائی کمیشن لندن میں جوڈیشل پینل موجود ہے جس سے نیب مفت خدمات حاصل کر سکتا تھا۔

بیرسٹر امجد ملک کہتے ہیں کہ اس سارے عمل کی تحقیقات کے لئے کمیشن بنایا جانا چاہئے۔

براڈ شیٹ معاملے سے موجودہ نیب مینجمنٹ کا عمل دخل نہیں

دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان ہائی کمیشن نے اس معاملے کو مزید کارروائی کے لیے اٹارنی جنرل پاکستان اور نیب کو بھیجا ہے۔

نیب ترجمان نے وائس آف امریکہ کے سوال پر تحریری جواب میں بتایا کہ نیب کی موجودہ مینجمنٹ نے نہ تو یہ معاہدہ کیا اور نہ ہی اس حوالے سے قانونی چارہ جوئی کا آغاز کیا بلکہ یہ تمام کارروائی گزشتہ ادوار میں ہوتی رہی ہے جس کا موجودہ انتظامیہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس تمام عمل میں اٹارنی جنرل آفس اور وزارت قانون کی معاونت حاصل رہی ہے اور براڈ شیٹ کے 550 ملین ڈالرز کے دعوے کے مقابلے میں 290 ملین ڈالرز جرمانہ عائد ہوا۔

براڈ شیٹ کا کہنا ہے کہ یہ کمپنی اثاثوں اور رقوم کی بازیابی میں مہارت رکھتی ہے اور اسی وجہ سے اس طرح کی چیزوں کا سراغ لگانے، تلاش کرنے اور ریاست میں واپس منتقل کرنے میں مصروف ہے۔

XS
SM
MD
LG