افغانستان کے سابق صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کی خودکُش حملے میں ہلاکت کو غیر جانبدار مبصرین ملک میں قیام امن کی کوششوں کے لیے ایک دھچکا قرار دے رہے ہیں۔
طالبان کے ساتھ امن و مصالحت کے فروغ کے لیے اعلیٰ امن کونسل کے سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں سنھبالنے کے بعد مقتول سابق افغان صدر نے دو مرتبہ پاکستان کا دورہ بھی کیا اور ان کا یہ موقف رہا کہ امن کے قیام میں پاکستان اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے ان کی کوششوں کے اعتراف کرتے ہوئے بدھ کو وفاقی کابینہ سے اجلاس میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے برہان الدین ربانی کو پاکستان کا دوست قرار دیا اور ان کے قتل کی مذمت کی۔
کابینہ کے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے خصوصی گفتگو میں وفاقی وزیر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ ’’صدر اور وزیر اعظم پاکستان نے (پروفیسر ربانی کے قتل) کی شدید مذمت کی ہے۔ ایسے تمام گروہ جو اس وقت اپنے مذموم مقاصد کے لیے انسانی جانوں سے کھیل کر اپنا ایجنڈا منوانا چاہتے ہیں۔ ہم نے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ ان کے سامنے جھکیں گے نا گھٹنے ٹیکیں گے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کو جہاد سمجھ کر جاری رکھیں گے۔‘‘
ہمسایہ ملک پاکستان میں اراکین پارلیمان اور سابق سفارت کاروں کا بھی ماننا ہے کہ اس واقعہ سے افغان حکومت کی عسکریت پسندوں سے مفاہت کی کوششیں شدید متاثر ہوں گی۔
پاکستانی سینیٹ کی اُمور خارجہ کی کمیٹی کے چیئرمین سلیم سیف اللہ خان نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا پروفیسر ربانی کا متبادل تلاش کرنا آسان نہیں ہوگا۔ ’’پچھلے دو سالوں کی محنت کو دیکھا جائے تو وہ بڑے منظم طریقے سے آگے بڑھ رہے تھے۔‘‘
اُنھوں نے کہا کہ برہان الدین ربانی کا قتل امن کی کوششوں کے لیے یقیناً بڑا نقصان ہے لیکن امن ومفاہمت کی کوششوں کو جاری رکھنا ہی خطے کے مفاد میں ہے۔
سابق پاکستانی سفارت کار ایاز وزیر نے امن کی کوششوں کے لیے پروفیسر برہان الدین ربانی کی اہمیت بتاتے ہوئے کہا کہ ان کی ہلاکت افغانستان کے لیے ایک بڑا نقصان ہے۔ ’’میں سمجھتا ہوں کہ افغان حکومت کو شاید ہی برہان الدین ربانی کا (کوئی ایسا) متبادل مل سکے جو پٹھانوں، تاجک، ازبک اور دیگر قومیتوں کو بھی قابل قبول ہو۔‘‘
پروفیسر برہان الدین ربانی پر جان لیوا خودکش حملہ منگل کو کابل میں ان کی رہائش گاہ پر کیا گیا تھا اور افغان حکام کا کہنا ہے کہ اُن سے ملاقات کے لیے آنے والے حملہ آور نے بارودی مواد سر پر رکھی پگڑی میں چھپا رکھا تھا۔
گزشتہ سال افغان صدر حامد کرزئی نے اُنھیں اُس اعلیٰ امن کونسل کا سربراہ مقرر کیا تھا جو طالبان کے ساتھ امن و مصالحت کے فروغ کی ذمہ داری کوششیں کر رہی ہے۔