افغانستان کے سابق صدر اور اعلیٰ ترین مصالحت کار پروفیسر برہان الدین ربانی کی ایک روز قبل ہلاکت کے خلاف سینکڑوں افراد بدھ کو سوگ منا رہے ہیں۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ایک طالبان خودکش حملہ آور نے اپنی پگڑی میں چھپائے گئے بم سے حملہ کرکے پروفیسر ربانی کو ان ہی کی رہائشی گاہ میں ہلاک کر دیا تھا۔
اس واقعہ میں چار دیگر افراد بھی مارے گئے جب کہ صدر حامد کرزئی کے ایک اہم مشیر معصوم استنکزئی زخمی ہوئے۔
سوگواران کی بڑی تعداد سابق صدر کی رہائش گاہ کے قریب سڑک پر جمع ہوئی۔ اُنھوں نے پروفیسر ربانی کی تصاویر اور حکومت مخالف بینر اُٹھا رکھے تھے۔
نیٹو حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ اس واقعہ میں دو خودکش حملہ آور ملوث تھے، جنھوں نے یہ جھوٹا تاثر دیا کہ وہ مفاہمت کے سلسلے میں بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔
طالبان کے ایک ترجمان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے برطانوی خبر رساں ادارے کو بتایا کہ عسکریت پسند تنظیم نے دو انتہائی تربیت یافتہ جنگجوؤں کو پروفیسر ربانی سے روابط قائم کرنے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
برہان الدین ربانی کا تعلق تاجک برادری سے تھا اور وہ 1992ء سے 1996ء تک افغانستان کے صدر کے عہدے پر فائض رہے۔ گزشتہ سال اُنھیں عسکریت پسندوں کے ساتھ مفاہمت کے لیے قائم کی گئی اعلیٰ امن کونسل کا سربراہ نامزد کیا گیا۔
موجودہ افغان صدر حامد کرزئی نے پروفیسر ربانی پر خودکش حملے کی مذمت کرنے ہوئے کہا ہے کہ اُنھوں نے افغانستان اور امن کی خاطر اپنی جان کی قربانی دی۔
دریں اثنا بدھ کو اسلام آباد میں وفاقی کابینہ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی پروفیسر ربانی کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ وہ ’’پاکستان کے دوست‘‘ تھے۔