پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگیولیٹری اتھارٹی (پیمرا)کی جانب سے ملک بھر میں چالیس سے زائد ملکی و غیر ملکی ٹی وی چینلز کی نشریات پہ پابندی عائد کردی گئی ہے۔
ملک میں الیکٹرانک ٹی وی چینلز کے ریگیولیٹری ادارے کی جانب سے یہ قدم سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے تحت اٹھایا گیا ہے۔ اتھارٹی کی جانب سے بدھ کی رات ملک بھر کے کیبل آپریٹرز کو جاری ہونے والے ہدایت نامے میں پیمرا سے رجسٹریشن کے بغیر چلائے جانے والے ملکی و غیر ملکی چینلزکی نشریات فوری طور پر بند کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ جس کے بعد ملک کے بیشتر علاقوں میں کیبل آپریٹرز کی جانب سے ایسے تمام چینلز آف ایئر کردیے گئے۔
چیئر مین پیمرا مشتاق ملک نے سرکاری خبر رساں ایجنسی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پیمرا نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے ملک بھر کے کیبل آپریٹرز کو غیررجسٹرڈ چینلز کی نشریات بند کرنے کا حکم دیا ہے، جس پر عمل کیا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رواں سال اپریل میں بھی اتھارٹی کی جانب سے پچاس سے زائد غیر قانونی چینلز بند کرائے گئے تھے جن میں سے بیشتر کی نشریات دوبارہ نشر کی جارہی تھیں، جس کے بعد پیمرا کو یہ قدم اٹھانا پڑا۔
تاہم پیمرا کے اس بار "جاگنے" کی وجہ سپریم کورٹ آف پاکستان کا وہ آرڈر بنا ہے جس میں ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے ملک بھر میں چلنے والے غیر قانونی چینلز کی نشریات پہ اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری انفارمیشن سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔ منگل کے روز حکومت کی جانب سے ملک کے دو بڑے نیوز چینلز، جیو نیوز اور اے آر وائی نیوز، کی نشریات پہ لگائی جانے والی غیر اعلانیہ پابندی کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے ملک میں چلنے والے غیر قانونی چینلز کی نشریات پہ سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے سیکریٹری انفارمیشن سے رپورٹ طلب کرلی تھی۔
سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے چیئرمین پیمرا کی سخت سرزنش کی گئی تھی اور نیوز چینلز کی بندش کے حوالے سے ان کی جانب سے اختیار کیے گئے موقف پہ انہیں توہینِ عدالت کا نوٹس بھی جاری کیا گیا تھا۔
ماضی میں بھی پاکستان کی حکومتوں کی جانب سے نیوز چینلز پہ دبائو ڈالنے کی غرض سے پیمرا کو استعمال کرتے ہوئے ان کی نشریات معطل کرنے کے واقعات پیش آچکے ہیں۔ جس پہ عدالت نے اپنی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین پیمرا سے استفسار کیا تھا کہ "غیرقانونی طور پہ چلنے والے چینلز کی نشریات بند کرانے کے لیے انہیں اپنی ذمہ داری اور اختیارات کیوں یاد نہیں آتے"؟
پیمرا ذرائع کے مطابق بند کیے جانے والے چینلز کی تعداد 40 کے لگ بھگ ہے جس میں کئی معروف ملکی نشریاتی نیٹ ورکس کے چینلز بھی شامل ہیں۔ جبکہ پڑوسی ملک ہندوستان سے چلنے والے تما م انٹرٹینمنٹ چینلز کی نشریات بھی اس پابندی کی زد میں آئی ہیں تاہم اسپورٹس کے چینلز پہ پابندی عائد نہیں کی گئی۔ حکام کے مطابق بند کیے گئے تمام ملکی چینلز پیمرا سے رجسٹریشن کے بغیر چلائے جارہے تھے اور ان کی نشریات غیرقانونی تھیں۔ جبکہ پاکستان میں ہندوستانی چینلز کی نشریات پہ ویسے ہی پابندی عائد ہے تاہم کیبل آپریٹرز کی جانب سے پڑوسی ملک کے ٹی وی چینلز کی نشریات غیر قانونی طور پر دکھائی جارہی تھیں۔
واضح رہے کہ ہندوستانی چینلز اور فلمیں پاکستانی ناظرین خصوصاًخواتین میں خاصی مقبول ہیں۔ پابندی کی زد میں ہندوستان کے معروف اسٹار نیٹ ورک کا چینل اسٹار پلس بھی آیا ہے جس پہ آنے والے ڈرامے اور سوپ سیریلیز پاکستانی ناظرین کی ایک بڑی تعداد میں خاصے اہتمام سے دیکھے جاتے ہیں۔
چینلز پہ لگنے والی اس پابندی کی زد میں ہندوستانی انٹرٹینمنٹ چینلز کے ساتھ ساتھ کئی مقامی مذہبی اور کوکنگ چینلز بھی آئے ہیں جو پیمرا حکام کے مطابق بغیر کسی رجسٹریشن کے عرصہ دراز سے اپنی نشریات غیر قانونی طور پر جاری رکھے ہوئے تھے۔ پابندی کی زد میں آنے والے بعض چینلز کی نشریات کو شروع ہوئے پانچ سال سے بھی زائد عرصہ گزر چکا ہے۔
ایسے ہی ایک مذہبی چینل کیو ٹی وی کے منیجنگ ڈائریکٹر اور معروف اینکرپرسن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کا کہنا ہے کہ ان کی جانب سے رجسٹریشن کی درخواست پیمرا کے پاس عرصہ دراز سے التواء میں پڑی ہے جس پہ کوئی کاروائی نہیں کی جارہی ۔ ڈاکٹر عامر کے مطابق انکی رجسٹریشن درخواست پہ فیصلہ سنانے کے بجائے ادارے کی جانب سے ملک بھر میں چینل کی نشریات بند کردی گئی ہیں جس کے خلاف وہ سپریم کورٹ سے رجوع کرینگے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بطورِ احتجاج اب وہ اور ان کے ساتھی اینکرز چینل پہ چلنے والے تمام پروگرامز سڑکوں پر کرینگے۔