پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں اتوار کی صبح فوجی قافلے پر حملے میں کم ازکم ایک سکیورٹی اہلکار زخمی ہو گیا۔
حکام کے مطابق فوجی قافلہ تربیلا سے پشاور آ رہا تھا جسے اسلام آباد، پشاور موٹر وے پر شہر میں داخل ہونے سے قبل دیسی ساختہ ریموٹ کنٹرول بم سے نشانہ بنایا گیا۔
بتایا جاتا ہے کہ دھماکے کے لیے تقریباً چار کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا جسے شاہراہ کو منقسم کرنے والی خالی جگہ میں چھپایا گیا تھا۔
دھماکے سے فوجی ٹرک کو بھی نقصان پہنچا جب کہ زخمی اہلکار کو فوری طور پر اسپتال منتقل کر دیا گیا جہاں اس کی حالت خطرے سے باہر بتائی جاتی ہے۔
واقعے کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے میں مشتبہ حملہ آوروں کی تلاش شروع کر دی جب کہ کچھ دیر کیے لیے یہاں ہیلی کاپٹر کے ذریعے فضائی نگرانی بھی کی جاتی رہی۔
اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی ہے جس کے خلاف سکیورٹی فورسز نے شمالی وزیرستان سمیت ملک بھر میں کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں۔
حالیہ دنوں میں ایک بار پھر شمال مغربی علاقوں میں تشدد کے واقعات میں کچھ اضافہ دیکھا گیا ہے اور گزشتہ ماہ ہی کرم ایجنسی کے علاقے پارہ چنار میں شدت پسندوں نے بم حملہ کر کے کم از کم 24 افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔
حکام ان کارروائیوں کو سکیورٹی فورسز کی جاری کارروائیوں کا ردعمل قرار دیتے ہیں جب کہ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے چند دن پہلے ہی اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ ملک سے تمام منفی قوتوں کو ختم کر دیا جائے گا اور نئے سال میں عوام ملک میں امن کو ابھرتا ہوا دیکھیں گے۔
دفاعی امور کے تجزیہ کار اور سابق بریگیڈیئر سعد محمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں تشدد کی ایسی کارروائیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے نزدیک دہشت گردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے وضع کردہ قومی لائحہ عمل پر موثر انداز سے عملدرآمد نہ ہونے کے باعث شدت پسند اور ان کے معاونین مہلک سرگرمی کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔
تاہم حکومتی عہدیدار یہ کہہ چکے ہیں کہ قومی لائحہ عمل کر پوری طرح سے عملدرآمد کیا جا رہا ہے اور گزشتہ ڈیڑھ سال میں سیکڑوں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کو گرفتار کر کے قانون کے مطابق کارروائی کی جا رہی ہے جب کہ تشدد پر مبنی اکا دکا واقعات کو پوری طرح ختم کرنے کے لیے مزید کچھ وقت درکار ہو گا۔