پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے دارالحکومت پشاور میں اتوار کو دو خودکش بم دھماکوں میں کم ازکم 75 افراد ہلاک اور 100 سے زائد افراد زخمی ہو گئے۔
پولیس کے مطابق پشاور کے مصروف علاقے کوہاٹی گیٹ میں ایک گرجا گھر کے احاطے میں دو خودکش حملہ آوروں نے گھس کر یکے بعد دیگرے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
پشاور پولیس کے سربراہ محمد علی بابا خیل نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ مسیحی برادری کے لوگ عبادت کے بعد ٹولیوں کی شکل میں چرچ سے نکل رہے تھے کہ ایک خودکش بمبار نے ان پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔
ان کے بقول وہاں تعینات پولیس اہلکار نے جب حملہ آور کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے اپنے جسم میں بندھے بارودی مواد میں دھماکا کردیا اور اسی دوران دوسرے خودکش بمبار نے بھی خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔
دھماکے کے بعد امدادی ٹیمیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو اسپتال منتقل کیا۔ زخمیوں میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں بعض زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔
اسسٹنٹ انسپکٹر جنرل پولیس شفقت ملک نے جائے وقوع پر صحافیوں کو بتایا کہ خودکش حملہ آوروں میں سے ایک کے جسمانی اعضا مل گئے ہیں جب کہ پولیس نے دیگر شواہد جمع کرکے تفتیش شروع کر دی ہے۔
’’ دونوں کی خودکش جیکٹوں میں چھ، چھ کلو دھماکا خیز مواد تھا اور بال بیرنگ بھی بڑی مقدار میں استعمال کیے گئے جس سے نقصان زیادہ ہوا۔‘‘
حکام کے مطابق چرچ کی سکیورٹی پر معمور دو پولیس اہلکاروں میں سے ایک ہلاک جب کہ ایک شدید زخمی ہوا ہے۔
واقعے کے بعد اہل علاقہ اور مسیحی برادری کے مشتعل افراد نے پولیس اور حکومت کے خلاف شدید نعرے بازی کی۔ مسیحی برادری کے ایک رکن صوبائی اسمبلی عظیم غوری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس ہلاکت خیز حملے کو سکیورٹی اداروں کی ناکامی قرار دیا۔
’’گیٹ پر پولیس والوں کو کھڑا ہونا چاہیے لیکن وہ یہاں موجود نہیں تھے وہ ساتھ ہی دوسری طرف اپنے کمروں میں بیٹھے ہوئے تھے، میں اس کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔‘‘
تاہم سی سی پی او پشاور محمد علی بابا خیل نے اس تاثر کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کو روکنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے اور پولیس کے اہلکار اپنی جانوں پر کھیل کر لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مصروف ہیں۔
صدر ممنون حسین اور وزیراعظم نوازشریف نے چرچ پر ہونے والے حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرین کو فوری امداد اور واقعے کی مکمل تحقیقات کر حکم دیا ہے۔
پاکستان کا شمال مغربی خطہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے جب کہ اس سے قبل بھی یہاں مساجد، امام بارگاہوں اور مختلف مذہبی مقامات پر بم حملوں سمیت سرکاری تنصیبات و اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
فوری طور پر کسی نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے تاہم قبائلی علاقوں میں روپوش شدت پسند اس سے قبل بھی ملک اور صوبے کے مختلف علاقوں میں پرتشدد کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔
گزشتہ اتوار کو خیبر پختونخواہ کے ضلع دیر بالا میں شدت پسندوں نے سڑک میں نصب بم سے فوج کے ایک قافلے کو نشانہ بنایا جس میں ایک میجر جنرل سمیت تین اہلکار ہو گئے تھے۔
یہ واقعات ایک ایسے وقت رونما ہوئے ہیں جب ملک میں امن و امان بحال کرنے کے حکومت شدت پسندوں سے مذاکرات کرنے کا عندیہ دے چکی ہے۔