پاکستان کے شمال مغربی شہر پشاور میں خواتین کے حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت ملک میں خواتین کے تحفظ کے لیے منظور کیے گئے قوانین پر کسی بھی قسم کا دباؤ قبول نہ کرتے ہوئے ان کے نفاذ کو یقینی بنائے۔
جمعرات کو ایسے ہی مظاہروں کا اہتمام کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بھی کیا گیا تھا جن میں حال ہی میں صوبہ پنجاب میں حقوق نسواں کا قانون 2016ء کی پذیرائی کرتے ہوئے اس کے مخالفین کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
خواتین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن رخشندہ ناز نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں بعض حلقے خصوصاً مذہبی طبقہ عورتوں کے حقوق سے متعلق بننے والے قوانین کا مخالف رہا ہے اور ایسا ہی رویہ اس تازہ بل کی منظوری کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔
"ہمارے دو مطالبے تھے، ایک یہ کہ جتنے بھی قوانین بنائے ہیں ایک تو حکومت اس کا تحفظ کرے اور کسی دباؤ میں نہ آئے اور دوسرا ہم نے کہا کہ اس طرح کی قانون سازی خیبر پختونخواہ میں بھی ہونی چاہیئے۔"
پنجاب میں منظور کیے گئے نئے قانون کے تحت خواتین پر تشدد اور انھیں ہراساں کرنے کو قابل سزا جرم قرار دینے کے علاوہ یہ بھی کہا گیا ہے کہ خاتون خانہ پر تشدد کرنے والے شخص کو دو روز کے لیے گھر سے باہر بھیجا جا سکتا ہے۔
مزید برآں خاتون کو کسی کی طرف سے تشدد کا خطرہ ہو تو عدالت کے حکم پر اس شخص کی نقل و حرکت پر نظر کھنے کے لیے اسے جی پی ایس والا ایک کڑا بھی پہنایا جا سکتا ہے۔
مذہبی حلقوں کی طرف سے اس قانون کی مخالفت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ خواتین کے حقوق کے لیے پہلے ہی قوانین موجود ہیں اور اس نئے قانون کی ضرورت نہیں اور ان کے بقول اس سے گھریلو اور خاندانی نظام میں مزید انتشار پیدا ہو سکتا ہے۔
پنجاب حکومت کے عہدیداروں کو کہنا ہے کہ یہ قانون صوبائی اسمبلی میں اکثریت رائے سے منظور ہوا لیکن اس کے باوجود اس پر ہونے والے اعتراض کرنے والوں کے ساتھ بات چیت کے ذریعے ترمیم پر غور کر سکتی ہے۔