اسلام آباد —
توانائی کے شعبے کے بعد اب قومی فضائی کمپنی پی آئی اے نے بھی اپنے واجب الادا تقریباً 200 ارب روپے کے قرضے کی ادائیگی کے لئے حکومت سے مدد طلب کی ہے۔
ادارے کے مرکزی ترجمان مشہود تاجور نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پی آئی اے کے اعلیٰ حکام کوششیں کررہے ہیں کہ ان کے قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت ایک بہتر طریقہ کار وضع کرے۔ ان کے بقول اس ادائیگی سے قومی فضائی ائیر لائن کے معاملات بہت حد تک بہتر ہوسکتے ہیں۔
’’ان قرضوں میں اضافہ ہماری وجہ سے نہیں بلکہ ملکی کرنسی کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہم نے جب جہاز قرضے پر لیے تو تب ڈالر 60 روپے کا تھا اور اب وہ 100 روپے کا۔ قرضہ ختم ہوجائے تو باقی چیزیں بھی بہتر ہوسکتی ہیں۔‘‘
قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کو گزشتہ کئی سالوں سے مالی خسارے کا سامنا ہے جو کہ اس کی غیر فعال کارکردگی اور گرتے ہوئے معیار کی ایک بڑی وجہ جانا جاتا ہے۔ اسی لیے بعض اقتصادی ماہرین قومی ائیر لائن کو سرکاری خزانے پر بوجھ گردانتے ہوئے اس کی نجکاری کا مشورہ دیتے ہیں۔
مشہود تاجور کا کہنا ہے کہ جہازوں کی کمی بھی پی آئی اے کی آمدن پر شدید اثر انداز ہورہی ہے۔
’’ہمارے فلیٹ میں زیادہ تر وہ جہاز ہیں جو زیادہ تیل استعمال کرتے ہیں اور ہمارے ریونیو کا ایک بڑا حصہ تو تیل پر خرچ ہو جاتا ہے اگر ہمیں کچھ بہتر معیار کے جہاز مہیا ہوں تو ہمارے نقصان پورا ہو سکتا ہے۔‘‘
نواز شریف حکومت نے گزشتہ ماہ توانائی کے شعبے میں زیر گردش قرضوں کی مد میں 322 ارب روپے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ادا کیے جبکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں حکومت نے حال ہی میں پی آئی اے کو جہازوں کے خریدے گئے فاضل پرزہ جات کی ادائیگی کی مد میں 7 ارب روپے دینے کی منظور دی ہے۔
موجودہ حکومت میں عہدیدار پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے جیسے قومی اداروں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر سالانہ اربوں روپے کے اخراجات کو ضیاع قرار دے چکے ہیں۔
حال ہی میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے پی آئی اے انتظامیہ کو متنبہ کیا تھا کہ وہ قومی فضائی کمپنی کی کارکردگی کو بہتر بنائیں ورنہ اس کی نجکاری کی جا سکتی ہے۔
مشہود تاجور کہتے ہیں ’’کوئی بھی سرمایہ کار اس حالت میں پی آئی اے کو نہیں لے گا کہ وہ پہلے 180 سے 200 ارب کے قرضے ادا کرے اور پھر اس پر مزید سرمایہ کاری کرے۔ بیچنے کے لئے بھی آپ کو چیزوں کی حالت بہتر کرنا ہوتی ہے۔ تو پہلے پی آئی اے پر سرمایہ کاری کی جائے۔‘‘
پی آئی اے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کے اعادہ کو سراہتے ہوئے قومی ائیر لائن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد اگرچہ دوسری فضائی کمپنیوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے مگر اس کا ادارے کے سالانہ ریونیو پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑتا۔
ادارے کے مرکزی ترجمان مشہود تاجور نے ہفتے کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ پی آئی اے کے اعلیٰ حکام کوششیں کررہے ہیں کہ ان کے قرضے کی ادائیگی کے لیے حکومت ایک بہتر طریقہ کار وضع کرے۔ ان کے بقول اس ادائیگی سے قومی فضائی ائیر لائن کے معاملات بہت حد تک بہتر ہوسکتے ہیں۔
’’ان قرضوں میں اضافہ ہماری وجہ سے نہیں بلکہ ملکی کرنسی کی قدر کم ہونے کی وجہ سے ہوا ہے۔ ہم نے جب جہاز قرضے پر لیے تو تب ڈالر 60 روپے کا تھا اور اب وہ 100 روپے کا۔ قرضہ ختم ہوجائے تو باقی چیزیں بھی بہتر ہوسکتی ہیں۔‘‘
قومی فضائی کمپنی پی آئی اے کو گزشتہ کئی سالوں سے مالی خسارے کا سامنا ہے جو کہ اس کی غیر فعال کارکردگی اور گرتے ہوئے معیار کی ایک بڑی وجہ جانا جاتا ہے۔ اسی لیے بعض اقتصادی ماہرین قومی ائیر لائن کو سرکاری خزانے پر بوجھ گردانتے ہوئے اس کی نجکاری کا مشورہ دیتے ہیں۔
مشہود تاجور کا کہنا ہے کہ جہازوں کی کمی بھی پی آئی اے کی آمدن پر شدید اثر انداز ہورہی ہے۔
’’ہمارے فلیٹ میں زیادہ تر وہ جہاز ہیں جو زیادہ تیل استعمال کرتے ہیں اور ہمارے ریونیو کا ایک بڑا حصہ تو تیل پر خرچ ہو جاتا ہے اگر ہمیں کچھ بہتر معیار کے جہاز مہیا ہوں تو ہمارے نقصان پورا ہو سکتا ہے۔‘‘
نواز شریف حکومت نے گزشتہ ماہ توانائی کے شعبے میں زیر گردش قرضوں کی مد میں 322 ارب روپے بجلی بنانے والی کمپنیوں کو ادا کیے جبکہ اقتصادی رابطہ کمیٹی میں حکومت نے حال ہی میں پی آئی اے کو جہازوں کے خریدے گئے فاضل پرزہ جات کی ادائیگی کی مد میں 7 ارب روپے دینے کی منظور دی ہے۔
موجودہ حکومت میں عہدیدار پی آئی اے، پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے جیسے قومی اداروں کی حالت زار پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ان اداروں کی کارکردگی بہتر بنانے پر سالانہ اربوں روپے کے اخراجات کو ضیاع قرار دے چکے ہیں۔
حال ہی میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اور ترقی احسن اقبال نے پی آئی اے انتظامیہ کو متنبہ کیا تھا کہ وہ قومی فضائی کمپنی کی کارکردگی کو بہتر بنائیں ورنہ اس کی نجکاری کی جا سکتی ہے۔
مشہود تاجور کہتے ہیں ’’کوئی بھی سرمایہ کار اس حالت میں پی آئی اے کو نہیں لے گا کہ وہ پہلے 180 سے 200 ارب کے قرضے ادا کرے اور پھر اس پر مزید سرمایہ کاری کرے۔ بیچنے کے لئے بھی آپ کو چیزوں کی حالت بہتر کرنا ہوتی ہے۔ تو پہلے پی آئی اے پر سرمایہ کاری کی جائے۔‘‘
پی آئی اے کی کارکردگی بہتر بنانے کے لئے حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کے اعادہ کو سراہتے ہوئے قومی ائیر لائن کے ترجمان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے میں ملازمین کی تعداد اگرچہ دوسری فضائی کمپنیوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہے مگر اس کا ادارے کے سالانہ ریونیو پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں پڑتا۔