پاکستان کی حکومت نے چین کے ساتھ اقتصادی راہداری کے منصوبے کو ملک اور خطے کی ترقی و خوشحالی کا باعث قرار دیتے ہوئے ایک بار پھر اس تاثر نفی کی ہے کہ اس کے مجوزہ روٹ میں کوئی تبدیلی کی گئی یا کی جا رہی ہے۔
اربوں ڈالر کے اس منصوبے پر بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے خدشات اور تحفظات زور پکڑتے جا رہے تھے جنہیں دو کرنے کے لیے وزیراعظم نواز شریف نے بدھ کو اسلام آباد میں پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کر رکھا تھا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مشاورت جمہوریت کی روح ہے اور ان کی حکومت تمام قومی معاملات کو اتفاق رائے سے حل کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
منصوبہ بندی و ترقی کے وفاقی وزیر احسن اقبال نے اجلاس کے شرکا کو اس منصوبے سے متعلق تفصیلی طور پر آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ اس طویل المدت منصوبے کے تحت ملک کے تمام حصوں میں یکساں ترقی ہوگی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ منصوبہ کسی سڑک کا نام نہیں بلکہ اس میں توانائی، مواصلات، صنعت اور بنیادی ڈھانچے کے متعدد منصوبے شامل ہیں جن کے پایہ تکمیل پر پہنچنے سے پاکستان خطے میں ایک تجارتی مرکز کی حیثیت اختیار کر جائے گا جس کے ثمرات پورے ملک کے لیے یکساں ہوں گے۔
"سوشل میڈیا پر جو کہا جا رہا ہے کہ یہ خنجراب سے لاہور کیوں جا رہا ہے اور پھر لاہور سے گوادر جا رہا ہے یہ سراسر غلط ہے۔"
حالیہ دنوں میں قوم پرست جماعت عوامی نیشنل پارٹی نے نہ صرف خیبر پختونخواہ بلکہ کوئٹہ میں بھی دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر اقتصادی راہداری کے روٹ میں مبینہ تبدیلی پر احتجاج کیا تھا جب کہ منگل کو خیبر پختونخواہ کے وزیراعلیٰ پرویز خٹک کی قیادت میں صوبائی اسمبلی کے ارکان نے اسلام آباد میں پارلیمان کے سامنے احتجاج کرتے ہوئے روٹ کی تبدیلی پر اپنے خدشات کو دہرایا تھا۔
بدھ کو ہونے والے اجلاس میں سابق صدر آصف علی زرداری کے علاوہ مختلف پارلیمانی جماعتوں کے رہنماؤں نے شرکت کی اور انھوں نے اس منصوبے سے متعلق مختلف سوالات بھی کیے۔
اقتصادی راہداری منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر تک مختلف علاقوں میں صنعتی و اقتصادی زونز اور ریلوے نیٹ ورک بنایا جائے گا۔