اسلام آباد —
پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ موجودہ حالات میں کسی کو بھی پاکستان کی اندرونی امن و سلامتی کو داؤ پر لگانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی ہے اور نہ دی جائے گی۔
بدھ کو جاری ایک سرکاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ایک ریاست کی حیثیت سے پاکستان اس وقت دو جنگیں لڑ رہا ہے جن میں ایک طرف اس کی فوج دہشت گردی کے عفریت سے نمٹ رہی ہے تو دوسری جانب حکومت تباہ حال معیشت کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
وزیراعظم کا یہ بیان منگل کو لاہور میں ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس کی مڈبھیر کے نتیجے میں دو خواتین سمیت آٹھ افراد کی ہلاکت کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس پر سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے ہائی کورٹ کا عدالتی ٹربیونل قائم کیا جا چکا ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عدالتی کمیشن کی تشکیل کا اعلان منگل کو وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے کیا تھا اور ان کے بقول اگر کمیشن نے ان پر ذمہ داری عائد کی تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔
لیکن ادارہ منہاج القرآن کے کینیڈا میں مقیم قائد طاہر القادری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ لاہور میں پیش آنے والا واقعہ حکومت کی نااہلی ہے۔
تاہم پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن کو نہ ماننے والے توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔
"ایف آئی آر کا اندراج ہو چکا ہے اور اس پر تفتیش جوڈیشل کمیشن کی روشنی میں آگے بڑھے گی۔اگر کسی کی رائے یہ ہے کہ عدالتی کمیشن ڈھکونسلا ہے یا تاخیری حربہ ہے تو اس کا یہ خیال توہین عدالت ہے۔"
حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے تو لاہور کے واقعے پر حکومت کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے پولیس کے برتاؤ کو انتہائی تشویشناک قرار دیا جا ہی رہا تھا لیکن حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام ف نے بھی دبے الفاظ میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "پنجاب حکومت زیادہ سخت اقدام کی طرف نہیں جارہی بلکہ اس کو کور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔غلطی جس کی بھی ہو اس کی تحقیقات ہو جنہوں نے غلطی کی اس کو سزا ملنی چاہیے۔لیکن صورتحال کو کنٹرول کرنا قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایک شعلہ جو بھڑک گیا ہے اس پر مزید تیل ڈالنے کی بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔"
تاہم ان کا بھی یہ کہنا تھا موجودہ صورتحال میں ملک ایسے واقعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
طاہر القادری نے 23 جون کو پاکستان آکر حکومت کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے جس میں حزب مخالف کی بعض دیگر جماعتیں بھی ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر چکی ہیں۔
غیرجانبدار حلقے ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیش آنے والے اس واقعے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ملک کو درپیش سلامتی کے چیلجنز کے تناظر میں سیاسی قائدین کو تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
بدھ کو جاری ایک سرکاری بیان میں ان کا کہنا تھا کہ ایک ریاست کی حیثیت سے پاکستان اس وقت دو جنگیں لڑ رہا ہے جن میں ایک طرف اس کی فوج دہشت گردی کے عفریت سے نمٹ رہی ہے تو دوسری جانب حکومت تباہ حال معیشت کو دوبارہ قدموں پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
وزیراعظم کا یہ بیان منگل کو لاہور میں ادارہ منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں اور پولیس کی مڈبھیر کے نتیجے میں دو خواتین سمیت آٹھ افراد کی ہلاکت کے تناظر میں سامنے آیا ہے جس پر سیاسی و سماجی حلقوں کی طرف سے حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف نے ان ہلاکتوں پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ واقعے کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لیے ہائی کورٹ کا عدالتی ٹربیونل قائم کیا جا چکا ہے جس کی رپورٹ کی روشنی میں ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔
عدالتی کمیشن کی تشکیل کا اعلان منگل کو وزیراعلیٰ پنجاب اور نواز شریف کے چھوٹے بھائی شہباز شریف نے کیا تھا اور ان کے بقول اگر کمیشن نے ان پر ذمہ داری عائد کی تو وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔
لیکن ادارہ منہاج القرآن کے کینیڈا میں مقیم قائد طاہر القادری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس کمیشن کو مسترد کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ لاہور میں پیش آنے والا واقعہ حکومت کی نااہلی ہے۔
تاہم پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ نے کہا کہ واقعے کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن کے علاوہ حکومتی سطح پر بھی تحقیقات کی جا رہی ہے۔ صحافیوں سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ عدالتی کمیشن کو نہ ماننے والے توہین عدالت کے مرتکب ہوں گے۔
"ایف آئی آر کا اندراج ہو چکا ہے اور اس پر تفتیش جوڈیشل کمیشن کی روشنی میں آگے بڑھے گی۔اگر کسی کی رائے یہ ہے کہ عدالتی کمیشن ڈھکونسلا ہے یا تاخیری حربہ ہے تو اس کا یہ خیال توہین عدالت ہے۔"
حزب مخالف کی جماعتوں کی طرف سے تو لاہور کے واقعے پر حکومت کو موردالزام ٹھہراتے ہوئے پولیس کے برتاؤ کو انتہائی تشویشناک قرار دیا جا ہی رہا تھا لیکن حکومتی اتحاد میں شامل جمعیت علمائے اسلام ف نے بھی دبے الفاظ میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا۔
جمعیت کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "پنجاب حکومت زیادہ سخت اقدام کی طرف نہیں جارہی بلکہ اس کو کور کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔۔۔غلطی جس کی بھی ہو اس کی تحقیقات ہو جنہوں نے غلطی کی اس کو سزا ملنی چاہیے۔لیکن صورتحال کو کنٹرول کرنا قیادت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ ایک شعلہ جو بھڑک گیا ہے اس پر مزید تیل ڈالنے کی بجائے اس کو ٹھنڈا کرنے کی ضرورت ہے۔"
تاہم ان کا بھی یہ کہنا تھا موجودہ صورتحال میں ملک ایسے واقعات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
طاہر القادری نے 23 جون کو پاکستان آکر حکومت کے خلاف احتجاج شروع کرنے کا اعلان کررکھا ہے جس میں حزب مخالف کی بعض دیگر جماعتیں بھی ان کا ساتھ دینے کی حامی بھر چکی ہیں۔
غیرجانبدار حلقے ماڈل ٹاؤن لاہور میں پیش آنے والے اس واقعے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ملک کو درپیش سلامتی کے چیلجنز کے تناظر میں سیاسی قائدین کو تدبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔