اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اُن کا ملک امریکہ کے ساتھ تعلقات کو انتہائی اہمیت دیتا ہے اور واشنگٹن میں قیام کے دوران وہ تمام دوطرفہ اُمور پر بات چیت کریں گے۔
رواں سال جون میں تیسری مرتبہ وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کا امریکہ کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے، جس کی دعوت اُنھیں صدر براک اوباما نے دی تھی۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 20 سے 23 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس سرکاری دورے کے دوران وزیر اعظم نواز شریف امریکہ سے تجارت اور اقتصادی روابط کو مزید مستحکم بنانے پر بھی بات چیت کریں گے۔
نواز شریف کی امریکہ کے صدر براک اوباما سے 23 اکتوبر کو ملاقات طے ہے جس میں کثیر الجہتی تعلقات خاص طور پر علاقائی سلامتی اور افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کی جائے گی۔
اگرچہ مئی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد صدر براک اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہو چکا ہے لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان اس پہلے باضابطہ رابطے کو دوطرفہ تعلقات کی سمت کے تعین کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن میں قیام کے دوران وزیر اعظم نواز شریف امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن، اراکین کانگریس، امریکی عہدیداروں اور پاکستانی اور امریکی کاروباری شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
تجزیہ کار سلطان محمود حالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی جیمز ڈوبنز کی اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے ملاقات میں دیگر اُمور کے علاوہ نواز شریف اور صدر اوباما کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی گئی۔
’’ایک تو ڈرون حملے میں اس پر بات چیت ہو گی، پاکستان کی طرف سے یہ بھی کوشش ہو گی کہ ہمارے ہاں جو کل جماعتی کانفرنس میں طالبان سے گفتگو کرنے کی بات طے ہوئی ہے اس سے بھی صدر اوباما کو آگاہ کیا جائے۔‘‘
سلطان محمود حالی کہتے ہیں کہ امریکہ کے صدر افغانستان سے آئندہ سال کے اواخر میں بین الاقوامی افواج کے انخلا سے متعلق اُمور پر پاکستانی وزیر اعظم سے تبادلہ خیال کریں گے۔
’’صدر اوباما یہ بات ضرور کرنا چاہیں گے کہ پاکستان امریکی فوجوں کے انخلا میں مکمل حمایت کرے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کی جو کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جس میں تمام متحارب گروپوں بشمول طالبان سے بات چیت ہو اور اس ضمن میں اگر پاکستان کا کوئی اثر و رسوخ ہے تو پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔‘‘
واضح رہے کہ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اسلام آباد واشنگٹن سے یہ کہتا آیا ہے کہ ان حملوں کو بند کیا جائے۔
رواں سال جون میں تیسری مرتبہ وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد وزیر اعظم نواز شریف کا امریکہ کا یہ پہلا سرکاری دورہ ہے، جس کی دعوت اُنھیں صدر براک اوباما نے دی تھی۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق 20 سے 23 اکتوبر تک جاری رہنے والے اس سرکاری دورے کے دوران وزیر اعظم نواز شریف امریکہ سے تجارت اور اقتصادی روابط کو مزید مستحکم بنانے پر بھی بات چیت کریں گے۔
نواز شریف کی امریکہ کے صدر براک اوباما سے 23 اکتوبر کو ملاقات طے ہے جس میں کثیر الجہتی تعلقات خاص طور پر علاقائی سلامتی اور افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کی جائے گی۔
اگرچہ مئی کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی کامیابی کے بعد صدر براک اوباما اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان ٹیلی فون پر رابطہ ہو چکا ہے لیکن دونوں رہنماؤں کے درمیان اس پہلے باضابطہ رابطے کو دوطرفہ تعلقات کی سمت کے تعین کے لیے انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
واشنگٹن میں قیام کے دوران وزیر اعظم نواز شریف امریکہ کے نائب صدر جو بائیڈن، اراکین کانگریس، امریکی عہدیداروں اور پاکستانی اور امریکی کاروباری شخصیات سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
تجزیہ کار سلطان محمود حالی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ گزشتہ ہفتے افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی جیمز ڈوبنز کی اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے ملاقات میں دیگر اُمور کے علاوہ نواز شریف اور صدر اوباما کی واشنگٹن میں ہونے والی ملاقات کے ایجنڈے کو حتمی شکل دی گئی۔
’’ایک تو ڈرون حملے میں اس پر بات چیت ہو گی، پاکستان کی طرف سے یہ بھی کوشش ہو گی کہ ہمارے ہاں جو کل جماعتی کانفرنس میں طالبان سے گفتگو کرنے کی بات طے ہوئی ہے اس سے بھی صدر اوباما کو آگاہ کیا جائے۔‘‘
سلطان محمود حالی کہتے ہیں کہ امریکہ کے صدر افغانستان سے آئندہ سال کے اواخر میں بین الاقوامی افواج کے انخلا سے متعلق اُمور پر پاکستانی وزیر اعظم سے تبادلہ خیال کریں گے۔
’’صدر اوباما یہ بات ضرور کرنا چاہیں گے کہ پاکستان امریکی فوجوں کے انخلا میں مکمل حمایت کرے۔ دوسرا یہ کہ امریکہ کی جو کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم ہو جس میں تمام متحارب گروپوں بشمول طالبان سے بات چیت ہو اور اس ضمن میں اگر پاکستان کا کوئی اثر و رسوخ ہے تو پاکستان اپنا کردار ادا کرے۔‘‘
واضح رہے کہ افغانستان سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ کا باعث بنتے رہے ہیں۔ اسلام آباد واشنگٹن سے یہ کہتا آیا ہے کہ ان حملوں کو بند کیا جائے۔