اسلام آباد —
پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی جمیز ڈوبنز پاکستانی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے بعد پیر کو اسلام آباد سے روانہ ہو گئے ہیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی کی پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز کے درمیان ملاقات میں باہمی دلچسپی کے دوطرفہ اُمور کے علاوہ رواں ماہ کے اواخر میں صدر براک اوباما اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات کے ایجنڈے پر بھی بات کی۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ خطے خاص طور پر افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔
وزیراعظم نواز شریف اور امریکہ کے صدر براک اوباما کے درمیان ملاقات 23 اکتوبر کو طے ہے۔
رواں ہفتے وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ صدر براک اوباما کی دعوت پر پاکستانی وزیراعظم یہ دورہ کرنے جا رہے ہیں جس میں تمام شعبوں میں تعلقات پر بات چیت کی جائے گی۔
’’آگے چل جو تعلقات ہیں اُن میں مشترکہ تحفظات بھی ہیں، مشترکہ مفادات بھی ہیں۔ اقتصادی و تجارتی تعلقات بھی ہیں تو ایک جامع ایجنڈا ہو گا اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا عمل شروع کیا جائے جس کے ذریعے تعلقات زیادہ مضبوط ہوں۔‘‘
جون میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر براک اوباما سے یہ پہلی باضابطہ دوطرفہ ملاقات ہو گی۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری ہونے ایک بیان کے مطابق جمیز ڈوبنز نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے بھی ملاقات کی۔
آئندہ سال کے اواخر میں افغانستان سے امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے انخلا کے تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
خشکی سے گرے ملک افغانستان سے غیر ملکی افواج کا فوجی ساز و سامان پاکستان کے زمینی راستے کے ذریعے ہی ملک کے ساحلی شہر کراچی تک لانے کے بعد منتقل کیا جانا ہے۔
جب کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے انخلاء سے قبل وہاں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں افغان حکومت کی مصالحتی کوششوں میں بھی پاکستان کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
حال ہی میں پاکستان نے افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے سابق نائب ملا عبد الغنی برادر کو بھی رہا کیا تھا تاکہ وہ افغانستان میں مصالحت کی جاری کوششوں میں کردار ادا کر سکیں۔
امریکی نمائندہ خصوصی کی پاکستانی وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ اور قومی سلامتی سرتاج عزیز کے درمیان ملاقات میں باہمی دلچسپی کے دوطرفہ اُمور کے علاوہ رواں ماہ کے اواخر میں صدر براک اوباما اور وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات کے ایجنڈے پر بھی بات کی۔
پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق اس ملاقات میں دو طرفہ تعلقات کے علاوہ خطے خاص طور پر افغانستان کی صورت حال پر بات چیت کی گئی۔
وزیراعظم نواز شریف اور امریکہ کے صدر براک اوباما کے درمیان ملاقات 23 اکتوبر کو طے ہے۔
رواں ہفتے وزیراعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز نے اسلام آباد میں صحافیوں کو بتایا تھا کہ صدر براک اوباما کی دعوت پر پاکستانی وزیراعظم یہ دورہ کرنے جا رہے ہیں جس میں تمام شعبوں میں تعلقات پر بات چیت کی جائے گی۔
’’آگے چل جو تعلقات ہیں اُن میں مشترکہ تحفظات بھی ہیں، مشترکہ مفادات بھی ہیں۔ اقتصادی و تجارتی تعلقات بھی ہیں تو ایک جامع ایجنڈا ہو گا اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک ایسا عمل شروع کیا جائے جس کے ذریعے تعلقات زیادہ مضبوط ہوں۔‘‘
جون میں اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر براک اوباما سے یہ پہلی باضابطہ دوطرفہ ملاقات ہو گی۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے سے جاری ہونے ایک بیان کے مطابق جمیز ڈوبنز نے پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان سے بھی ملاقات کی۔
آئندہ سال کے اواخر میں افغانستان سے امریکی اور اس کی اتحادی افواج کے انخلا کے تناظر میں دونوں ملکوں کے تعلقات کو انتہائی اہم تصور کیا جا رہا ہے۔
خشکی سے گرے ملک افغانستان سے غیر ملکی افواج کا فوجی ساز و سامان پاکستان کے زمینی راستے کے ذریعے ہی ملک کے ساحلی شہر کراچی تک لانے کے بعد منتقل کیا جانا ہے۔
جب کہ افغانستان میں نیٹو افواج کے انخلاء سے قبل وہاں قیام امن کی کوششوں کے سلسلے میں افغان حکومت کی مصالحتی کوششوں میں بھی پاکستان کے کردار کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔
حال ہی میں پاکستان نے افغان طالبان کے امیر ملا عمر کے سابق نائب ملا عبد الغنی برادر کو بھی رہا کیا تھا تاکہ وہ افغانستان میں مصالحت کی جاری کوششوں میں کردار ادا کر سکیں۔