اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اُن کی حکومت مذاکرات کے ذریعے ملک سے تشدد اور خون ریزی کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔
جنوبی پنجاب میں ’عزم نو چہارم‘ کے نام سے ہونے والی فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب سے پیر کو خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ قیام امن کے سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں بشمول فوج کے درمیان ہم آہنگی نا گزیر ہے۔
وزیر اعظم کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب چند روز قبل شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو مذاکراتی عمل کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے پہلے باضابطہ رابطے سے کچھ گھنٹے قبل ہی گزشتہ جمعہ کو طالبان رہنما اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا تھا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تشدد کے خاتمے کے سلسلے میں کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔
’’یہ (تشدد کا خاتمہ) راتوں رات ممکن نہیں، نا ہی یہ اپنے شہریوں کے خلاف طاقت کے بے معنی استعمال کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امن کے حصول کے لیے سب سے پہلے معاشرے کے گمراہ عناصر کو قومی دھارے میں لانے کے لیے تمام کوششیں کرنا ہوں گی۔
’’اس مشکل گھڑی مین تمام فریقین بشمول سیاسی جماعتوں، افواج، مقننہ، عدلیہ، پارلیمان اور ذرائر ابلاغ کے درمیان اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ کوئی بھی مزید خون خرابا نہیں چاہتا۔‘‘
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کے موقف کو بھی دہریا۔
’’ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور انسانی ہمدردی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں، اور یہ پاکستان اور خطے میں استحکام اور امن کے لیے ہماری کوششوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں اقتصادی استحکام کا حصول امن اور سلامتی کی صورت حال سے جڑا ہوا ہے جس کے لیے حکومت کوششوں میں مصروف ہے۔
جنوبی پنجاب میں ’عزم نو چہارم‘ کے نام سے ہونے والی فوجی مشقوں کی اختتامی تقریب سے پیر کو خطاب میں نواز شریف نے کہا کہ قیام امن کے سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں اور اداروں بشمول فوج کے درمیان ہم آہنگی نا گزیر ہے۔
وزیر اعظم کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا جب چند روز قبل شمالی وزیرستان میں امریکی ڈرون حملے میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کو مذاکراتی عمل کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔
حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے لیے پہلے باضابطہ رابطے سے کچھ گھنٹے قبل ہی گزشتہ جمعہ کو طالبان رہنما اپنے ساتھیوں سمیت مارا گیا تھا۔
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ تشدد کے خاتمے کے سلسلے میں کسی حتمی تاریخ کا اعلان نہیں کیا جا سکتا۔
’’یہ (تشدد کا خاتمہ) راتوں رات ممکن نہیں، نا ہی یہ اپنے شہریوں کے خلاف طاقت کے بے معنی استعمال کے ذریعے ممکن ہے۔‘‘
وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ امن کے حصول کے لیے سب سے پہلے معاشرے کے گمراہ عناصر کو قومی دھارے میں لانے کے لیے تمام کوششیں کرنا ہوں گی۔
’’اس مشکل گھڑی مین تمام فریقین بشمول سیاسی جماعتوں، افواج، مقننہ، عدلیہ، پارلیمان اور ذرائر ابلاغ کے درمیان اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ کوئی بھی مزید خون خرابا نہیں چاہتا۔‘‘
وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں ڈرون حملوں کے خلاف پاکستان کے موقف کو بھی دہریا۔
’’ڈرون حملے پاکستان کی خودمختاری اور انسانی ہمدردی سے متعلق بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں، اور یہ پاکستان اور خطے میں استحکام اور امن کے لیے ہماری کوششوں کے لیے بھی نقصان دہ ہیں۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں اقتصادی استحکام کا حصول امن اور سلامتی کی صورت حال سے جڑا ہوا ہے جس کے لیے حکومت کوششوں میں مصروف ہے۔