پاکستان میں انسداد پولیو مہم سے وابستہ افراد پر ایک بار پھر ہلاکت خیز حملوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور بدھ کو ایک تازہ واقعے میں ایک رضا کار ہلاک اور ایک زخمی ہو گیا۔
مقامی حکام کے مطابق قبائلی ایجنسی باجوڑ کے علاقے کمان گرہ میں انسداد پولیو مہم کی ٹیم بچوں کو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلانے میں مصروف تھے کہ نامعلوم مسلح افراد نے ان پر اندھا دھند فائرنگ کر دی۔
مقامی حکام کے مطابق فائرنگ سے روح اللہ نامی رضا کار ہلاک ہو گئے جب کہ ان کا ایک ساتھی زخمی ہو گیا۔
حملہ آوروں کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ پیدل آئے تھے اور فائرنگ کے واقعے کے بعد موقع سے فرار ہو گئے۔
گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران پاکستان میں انسداد پولیو مہم کی ٹیموں پر یہ دوسرا ہلاکت خیز حملہ تھا۔
منگل کو شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے علاقے مانسہرہ میں بھی نامعلوم مسلح افراد نے فائرنگ کر کے دو خواتین رضاکاروں اور ان کی حفاظت پر مامور ایک پولیس اہلکار کو ہلاک کر دیا تھا۔
انسداد پولیو کی ٹیموں پر دسمبر 2012ء سے ہلاکت خیز حملوں کا سلسلہ شروع ہوا جس میں اب تک کم ازکم 77 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور ان حملوں کے باعث ملک میں انسداد پولیو کی مہم متعدد بار معطل ہونے کی وجہ سے پاکستان سے پولیو کے مکمل خاتمے کا ہدف حاصل کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔
گزشتہ سال پولیو سے متاثرہ 306 کیسز رپورٹ ہوئے تھے جو کہ ملک میں گزشتہ 14 سالوں کے دوران کسی ایک برس میں رپورٹ ہونے والے سب سے زیادہ کیسز ہیں۔
رواں سال اب تک پولیو وائرس سے متاثرہ 20 کیس سامنے آچکے ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ملک سے اس موذی وائرس کے مکمل خاتمے کے لیے بھرپور اور مربوط کوششیں کر رہی ہے جس میں انسداد پولیو کی ٹیموں کو مزید سکیورٹی فراہم کرنا بھی شامل ہے۔
پاکستان دنیا کے ان تین ملکوں میں شامل ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ دیگر دو ملکوں میں افغانستان اور نائیجیریا شامل ہیں لیکن یہاں سامنے آنے والے پولیو کیسز کی تعداد پاکستان کی نسبت بہت ہی کم ہے۔
طبی ماہرین یہ کہہ چکے ہیں کہ پولیو سے بچاؤ کے قطروں کی تمام بچوں تک رسائی اور اس مہم کو تواتر کے ساتھ جاری رکھ کر ہی پولیو کے مکمل خاتمے کے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔