رسائی کے لنکس

طالبان سے انسداد پولیو مہم میں تعاون کی اپیل


سرکاری مہم پر عسکریت پسندوں کی پابندی سے ساڑھے تین لاکھ بچوں کی صحت کو خطرہ لاحق ہے۔

پاکستان میں پولیو سے بچاؤ کی تین روزہ مہم پیر سے شروع ہو گئی ہے جس میں محکمہ صحت کے حکام کے مطابق ملک کے طول و عرض میں پانچ سال سے کم عمر تین کروڑ چالیس لاکھ بچوں کو حفاظتی قطرے پلائے جائیں گے۔

لیکن شمالی اور جنوبی وزیرستان میں پولیو کی سرکاری مہم پر طالبان کی پابندی جب کہ خیبر ایجنسی میں سلامتی کے خدشات کے پیش نظر ان علاقوں میں سرکاری ٹیموں کو نا بھیجنے کے فیصلہ کیا گیا ہے جس کی وجہ سے ان قبائلی علاقوں میں ساڑھے تین لاکھ بچے پولیو کے قطرے پینے سے محروم رہ جائیں گے۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی شہناز وزیر علی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان قبائلی علاقوں کے رہنماؤں سے انسداد پولیو کی مہم میں معاونت کی ایک بار پھر اپیل کی ہے۔
’’جب پولیو کی ٹیمیں وہاں جاتی ہیں تو انھوں نے کوئی ہتھیار تو نہیں اٹھایا ہوا ہوتا، اسلحہ و بارود ان کے کندھوں پر نہیں ہوتا وہ تو آپ کے بچوں کی جانیں بچانے کے لیے آتے ہیں۔ ان سے میری اپیل ہے کہ انھیں (پولیو ٹیموں) کو محفوظ راستہ دیں۔‘‘
شہناز وزیر علی


’’جب پولیو کی ٹیمیں وہاں جاتی ہیں تو انھوں نے کوئی ہتھیار تو نہیں اٹھایا ہوا ہوتا، اسلحہ و بارود ان کے کندھوں پر نہیں ہوتا وہ تو آپ کے بچوں کی جانیں بچانے کے لیے آتے ہیں۔ ان سے میری اپیل ہے کہ انھیں (پولیو ٹیموں) کو محفوظ راستہ دیں۔‘‘

شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ایک سرکردہ کمانڈر حافظ گل بہادر جب کہ جنوبی وزیرستان میں کمانڈر مولوی نذیر نے اس قبائلی خطے میں پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے والی سرکاری مہم پر پابندی لگا رکھی ہے۔
طالبان جنجگو (فائل فوٹو)
طالبان جنجگو (فائل فوٹو)


ان قبائلی جنگجوؤں کا الزام ہے کہ انسداد پولیو مہم کے ذریعے ان کے ساتھیوں کے بارے میں معلومات جمع کی جاتی ہیں جنھیں امریکی ڈرون حملوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

لیکن شہناز وزیر علی نے یہ تجویز بھی دی ہے کہ اگر وزیرستان اور دیگر قبائلی علاقوں کے بااثر افراد کو پولیو کی سرکاری ٹیموں کے بارے میں تحفظات ہیں تو وہ خود اس مہم کی نگرانی کریں۔

’’اپنے علاقے کے لوگوں کو ہمارے پاس بھیجنا چاہتے ہیں تو ان کے ذریعے ہم پولیو ویکسین بھیجنے کے لیے تیار ہیں ... جو بھی ان کے اعتماد کے لوگ ہیں ہم ان کو سب کچھ بتانے کے لیے تیار ہیں تاکہ وہ اپنے ہاتھوں سے بچوں کو (پولیو سے بچاؤ) کے قطرے پلائیں اور ان کو محفوظ کریں۔‘‘

پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ملکوں میں ہوتا ہے جہاں انسانی جسم کو اپاہج کر دینے والی اس مہلک بیماری کے وائرس پر پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

وزیر اعظم کی معاون خصوصی شہناز وزیر علی نے خدشہ ظاہر کیا کہ اگر آٓئندہ دو سالوں کے دوران پاکستان میں پولیو کے وائرس کا خاتمہ نا ہوا تو اس مہم کے لیے ملنے والی عالمی امداد اور تعاون شدید متاثر ہوگا۔

’’میں تسلیم کرتی ہوں کہ عالمی سطح پر پاکستان کے بارے میں یہ سمجھا جاتا ہے کہ اس وقت پولیو کے خاتمے کی جو کوششیں جاری ہیں اگر ان دو سالوں میں ہم پولیو وائرس کا خاتمہ نا کر پائے تو بہت مشکل ہو جائے گی۔‘‘
شہناز وزیر علی
شہناز وزیر علی


عالمی ادارہ صحت ’ڈبلیو ایچ او‘ کے عہدے دار یہ انتباہ بھی کر چکے ہیں کہ پولیو وائرس کی بدستور موجودگی پاکستانیوں پر بیرون ملک سفری پابندیوں کا سبب بھی بن سکتی ہے۔

تاہم شہناز وزیر علی کا کہنا تھا کہ صورت حال میں بہتری آئی ہے کیوں کہ اس سال اب تک پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 23 ہے جب کہ گزشتہ سال اس عرصے کے دوران ملک میں اس وائرس کا شکار بننے والے بچوں کی تعداد 59 تھی۔

انسداد پولیو کی تازہ مہم کے دوران لگ بھگ 78 ہزار ٹیمیں گھر گھر جا کر بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائیں گی جب کہ پانچ ہزار سے زائد ٹیمیں عوامی مقامات، ریلوے اسٹیشنوں، فضائی اور بس اڈوں اور مصروف بازاروں میں یہ فرائض انجام دیں گے۔

علاوہ ازیں پاک افغان سرحد پر 22 جب کہ سوست کے مقام پر پاک چین سرحد پر ایک پولیو پوائنٹ بنایا گیا ہے۔
XS
SM
MD
LG