پشاور —
پاکستان میں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں پیر سے تین روزہ انسداد پولیو مہم کا آغاز ہوا، جس میں عہدیداروں کے مطابق پانچ سال سے کم عمر سات لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
لیکن شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں ان تین دنوں کے دوران انسداد پولیو کی مہم سلامتی کے خدشات کے باعث نہیں چلائی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کی پشاور میں ایک عہدیدار شاداب یونس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ خیبر ایجنسی میں 17 مارچ کو انسداد پولیو کی مہم چلائی جا سکتی ہے۔
’’ٹارگٹ یہ ہے کہ اس مرتبہ کی جو مہم ہے اُس میں سات لاکھ تیرہ ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے اور اس کے لیے دو ہزار تین سو چوبیس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔‘‘
شاداب یونس نے بتایا کہ قبائلی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے انسداد پولیو کی مہم شامل افراد کی حفاظت کے لیے جامع نظام وضع کیا ہے۔
قبائلی علاقے باجوڑ کے ایک اعلٰی عہدیدار ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مقامی عمائدین بھی اس مہم کی کامیابی کے لیے انتظامیہ سے تعاون کر رہے ہیں۔
انسداد پولیو کی مہم کی کامیابی کے لیے قبائلی انتظامیہ میں شامل عہدیداروں نے قبائلی عمائدین اور علماء سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں تک پہنچنے میں انتظامیہ کی معاونت کریں۔
پاکستان، نائیجریا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کردینے والی موذی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
گزشتہ ایک برس سے خصوصاً سکیورٹی خدشات کے باعث کئی بار انسداد پولیو مہم معطل کرنی پڑیں جس سے ایک بار پھر ملک میں پولیو سے متاثرہ کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اگرچہ 2012ء میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 58 تک ہو گئی تھی لیکن 2013ء میں اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا اور پولیو سے بچوں کی تعداد 91 ہو گئی۔ رواں برس اب تک 24 کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں دو پشاور جب کہ دیگر متاثرہ بچوں کی اکثریت کا تعلق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے۔
ملک میں انسداد پولیو کی کوششوں کو اس مہم سے وابستہ رضاکاروں پر شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت پشاور کو دنیا میں پولیو کا سب سے بڑا گڑھ بھی قرار دے چکا ہے۔
تاہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو اپاہج کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔
لیکن شمالی وزیرستان اور خیبر ایجنسی میں ان تین دنوں کے دوران انسداد پولیو کی مہم سلامتی کے خدشات کے باعث نہیں چلائی جائے گی۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال ’یونیسف‘ کی پشاور میں ایک عہدیدار شاداب یونس نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ خیبر ایجنسی میں 17 مارچ کو انسداد پولیو کی مہم چلائی جا سکتی ہے۔
’’ٹارگٹ یہ ہے کہ اس مرتبہ کی جو مہم ہے اُس میں سات لاکھ تیرہ ہزار بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں گے اور اس کے لیے دو ہزار تین سو چوبیس ٹیمیں تشکیل دی گئی ہیں۔‘‘
شاداب یونس نے بتایا کہ قبائلی انتظامیہ اور سکیورٹی فورسز نے انسداد پولیو کی مہم شامل افراد کی حفاظت کے لیے جامع نظام وضع کیا ہے۔
قبائلی علاقے باجوڑ کے ایک اعلٰی عہدیدار ڈاکٹر ذاکر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ مقامی عمائدین بھی اس مہم کی کامیابی کے لیے انتظامیہ سے تعاون کر رہے ہیں۔
انسداد پولیو کی مہم کی کامیابی کے لیے قبائلی انتظامیہ میں شامل عہدیداروں نے قبائلی عمائدین اور علماء سے بھی اپیل کی ہے کہ وہ پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں تک پہنچنے میں انتظامیہ کی معاونت کریں۔
پاکستان، نائیجریا اور افغانستان کے علاوہ دنیا کا وہ تیسرا ملک ہے جہاں انسانی جسم کو مفلوج کردینے والی موذی بیماری پولیو کے وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔
گزشتہ ایک برس سے خصوصاً سکیورٹی خدشات کے باعث کئی بار انسداد پولیو مہم معطل کرنی پڑیں جس سے ایک بار پھر ملک میں پولیو سے متاثرہ کیسز میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔
پاکستان میں اگرچہ 2012ء میں پولیو سے متاثرہ بچوں کی تعداد 58 تک ہو گئی تھی لیکن 2013ء میں اس میں ایک بار پھر اضافہ ہوا اور پولیو سے بچوں کی تعداد 91 ہو گئی۔ رواں برس اب تک 24 کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں دو پشاور جب کہ دیگر متاثرہ بچوں کی اکثریت کا تعلق قبائلی علاقے شمالی وزیرستان سے ہے۔
ملک میں انسداد پولیو کی کوششوں کو اس مہم سے وابستہ رضاکاروں پر شدت پسندوں کے حملوں کی وجہ سے شدید نقصان پہنچا ہے جب کہ حال ہی میں عالمی ادارہ صحت پشاور کو دنیا میں پولیو کا سب سے بڑا گڑھ بھی قرار دے چکا ہے۔
تاہم وفاقی و صوبائی حکومتوں کا کہنا ہے کہ انسانی جسم کو اپاہج کرنے والے پولیو وائرس کے خاتمے کے لیے بھرپور کوششیں جاری رکھی جائیں گی۔