اسلام آباد —
وزیر مملکت برائے نیشنل ہیلتھ سروسز سائرہ افضل تارڑ کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کی طرف سے پولیو کے پھیلاؤ پر پاکستان پر سفری پابندیوں کی سفارش ’’جلد بازی‘‘ میں کی گئی تاہم وفاقی اور صوبائی حکومتیں ادارے کی اس متعلق تمام شرائط پر مکمل عمل درآمد کو یقینی بنائیں گی۔
یہ بات انہوں نے بدھ کو چاروں صوبوں کے وزرائے صحت اور انسداد پولیو مہم سے وابستہ دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس کے بعد کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں طے پایا کہ پاکستان سے باہر جانے والے مسافروں کے لیے انسداد پولیو کی خصوصی مہم کی تیاری کے لیے ڈبلیو ایچ او سے کم از کم دوہفتوں کا وقت مانگا جائے تاہم اس دوران سفر کرنے والوں کو ان کے بقول تنگ نا کیا جائے۔
’’ایک یونیفارم قسم کا کارڈ ہوگا۔ اس پر سیریل نمبر ہوگا تاکہ اس کا غلط استعمال نا ہوسکے۔ تمام صوبائی حکومتیں اپنے ہاں سنٹرز بنائیں گی اور جن لوگوں کو ایمرجنسی میں باہر جانا ہو ان کے لیے ایئرپورٹ پر کاؤنٹر بنائے جائیں گے تاکہ وہاں انہیں کارڈ مل سکے۔‘‘
وزیر کا کہنا تھا کہ ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں سے روزانہ پاکستان سے 27 ہزار افراد بیرون ملک جاتے ہیں جبکہ اس وقت انسداد پولیو ویکسین کی کمی کا مسئلہ ہے۔
’’ان کے اپنے قواعد ہیں کہ اگر کسی کے خلاف پابندی لگے یا اس کی سفارش کرے تو اس کے ویکسین اور مالی وسائل کا انتظام وہی کرتے ہیں ہم نے انہیں بتا دیا ہے تو جیسے ویکسین ملتی ہے ہم کام شروع کردیں گے۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کی طرف سے پاکستان سمیت تین ممالک پر سفری پابندی کی سفارش کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہاں سے پولیو وائرس دنیا کے مختلف حصوں میں منتقل ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں پایا جانے والا پولیو وائرس افغانستان، شام، عراق اور مصر میں بھی پایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بیرون ملک وائرس کے پھیلاؤ میں تو کمی لائی جا سکتی ہے مگر پاکستانی حکومت کو ملک کے اندر اس کے خلاف موثر اقدامات کرنا ہوں گے خصوصاً قبائلی علاقوں میں جہاں انسداد پولیو مہم پر عسکریت پسندوں کی طرف سے پابندی ہے۔
وزیر مملکت سائرہ افضل تاڑر کا کہنا تھا کہ طالبان شدت پسندوں سے تعطل کے شکار مذاکرات میں بھی نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے اس پابندی کے خاتمے کی شرط ہونی چاہیے۔
’’جنوبی اور شمالی وزیرستان کے گرد ہم نے چیک پوسٹ پر پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دینے کا کام شروع کر رکھا ہے جو آتا یا جاتا ہے اسے ویکسین پلائی جاتی ہے۔ دوسرا گورنر اور قبائلی عمائدین کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ جو اس کے خلاف ہیں انہیں راضی کریں۔‘‘
پاکستان میں رواں سال اب تک پولیو کے 59 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے بیشتر سرکاری حکام کے مطابق قبائلی علاقوں سے رپورٹ ہوئے ہیں۔
یہ بات انہوں نے بدھ کو چاروں صوبوں کے وزرائے صحت اور انسداد پولیو مہم سے وابستہ دیگر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے ساتھ ایک مشاورتی اجلاس کے بعد کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں طے پایا کہ پاکستان سے باہر جانے والے مسافروں کے لیے انسداد پولیو کی خصوصی مہم کی تیاری کے لیے ڈبلیو ایچ او سے کم از کم دوہفتوں کا وقت مانگا جائے تاہم اس دوران سفر کرنے والوں کو ان کے بقول تنگ نا کیا جائے۔
’’ایک یونیفارم قسم کا کارڈ ہوگا۔ اس پر سیریل نمبر ہوگا تاکہ اس کا غلط استعمال نا ہوسکے۔ تمام صوبائی حکومتیں اپنے ہاں سنٹرز بنائیں گی اور جن لوگوں کو ایمرجنسی میں باہر جانا ہو ان کے لیے ایئرپورٹ پر کاؤنٹر بنائے جائیں گے تاکہ وہاں انہیں کارڈ مل سکے۔‘‘
وزیر کا کہنا تھا کہ ہوائی، سمندری اور زمینی راستوں سے روزانہ پاکستان سے 27 ہزار افراد بیرون ملک جاتے ہیں جبکہ اس وقت انسداد پولیو ویکسین کی کمی کا مسئلہ ہے۔
’’ان کے اپنے قواعد ہیں کہ اگر کسی کے خلاف پابندی لگے یا اس کی سفارش کرے تو اس کے ویکسین اور مالی وسائل کا انتظام وہی کرتے ہیں ہم نے انہیں بتا دیا ہے تو جیسے ویکسین ملتی ہے ہم کام شروع کردیں گے۔‘‘
ڈبلیو ایچ او کی طرف سے پاکستان سمیت تین ممالک پر سفری پابندی کی سفارش کرنے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ یہاں سے پولیو وائرس دنیا کے مختلف حصوں میں منتقل ہورہا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پاکستان میں پایا جانے والا پولیو وائرس افغانستان، شام، عراق اور مصر میں بھی پایا گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے بیرون ملک وائرس کے پھیلاؤ میں تو کمی لائی جا سکتی ہے مگر پاکستانی حکومت کو ملک کے اندر اس کے خلاف موثر اقدامات کرنا ہوں گے خصوصاً قبائلی علاقوں میں جہاں انسداد پولیو مہم پر عسکریت پسندوں کی طرف سے پابندی ہے۔
وزیر مملکت سائرہ افضل تاڑر کا کہنا تھا کہ طالبان شدت پسندوں سے تعطل کے شکار مذاکرات میں بھی نواز شریف انتظامیہ کی طرف سے اس پابندی کے خاتمے کی شرط ہونی چاہیے۔
’’جنوبی اور شمالی وزیرستان کے گرد ہم نے چیک پوسٹ پر پولیو سے بچاؤ کی ویکسین دینے کا کام شروع کر رکھا ہے جو آتا یا جاتا ہے اسے ویکسین پلائی جاتی ہے۔ دوسرا گورنر اور قبائلی عمائدین کو یہ ٹاسک دیا ہے کہ جو اس کے خلاف ہیں انہیں راضی کریں۔‘‘
پاکستان میں رواں سال اب تک پولیو کے 59 کیسز سامنے آئے ہیں جن میں سے بیشتر سرکاری حکام کے مطابق قبائلی علاقوں سے رپورٹ ہوئے ہیں۔