رسائی کے لنکس

بونیر: انسداد پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکار ہلاک


فائل فوٹو
فائل فوٹو

ضلعی پولیس افسر آصف اقبال خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ علاقے میں انسداد پولیو کی مہم پیر کو شروع ہوئی جس کے لیے پولیس اہلکاروں کو بلایا گیا تھا۔

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ کے ضلع بونیر میں نا معلوم افراد نے انسداد پولیو کے رضاکاروں کی سکیورٹی پر مامور دو پولیس اہلکاروں کو گولی مار کر ہلاک کر د یا ہے۔

حکام کے مطابق یہ واقع اتوار اور پیر کی درمیانی شب ضلع بونیر کے علاقے پیر بابا میں پیش آیا۔ ضلعی پولیس افسر آصف اقبال خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بتایا کہ علاقے میں انسداد پولیو کی مہم پیر کو شروع ہوئی جس کے لیے پولیس اہلکاروں کو بلایا گیا تھا۔

اُنھوں نے بتایا کہ سوات اور بونیر کے سرحدی علاقے پر تعنیات ان اہلکاروں کو بلایا گیا تھا لیکن وہ اتوار کی رات سے لاپتہ تھے۔

’’ٹارگیٹڈ آپریشن شروع کیا ہے، کچھ (مشتبہ) لوگوں کو پکڑا گیا ہے اور اُن سے ملنے والی معلومات کی بنیاد پر مزید کارروائی کی جائے گی۔‘‘

پاکستان کے وفاقی ادراہ صحت کے حکام کے مطابق پیر کو ملک بھر میں انسداد پولیو کے تین روز مہم کا آغاز ہوا۔ حکام کے مطابق اس مہم کے دوران پورے ملک میں ساڑھے تین کروڑ بچوں کو انسداد پولیو کے قطرے پلوائیں جائیں گے۔

پاکستان کا شمار دنیا کے ان تین ممالک میں ہوتا ہے جہاں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے۔ دوسرے دو ممالک افغانستان اور نائیجریا ہیں۔

پاکستان میں اس سال پولیو سے متاثر ہونے والے بچوں کی تعداد 276 ہو گئی ہے ان میں سے زیادہ بچوں کا تعلق صوبہ خبیر پختونخواہ سے ملحقہ قبائلی علاقے سے ہیں۔

پاکستان میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ کی بڑی وجہ سلامتی کے خدشات کے باعث انسداد پولیو ٹیموں کا تمام بچوں تک نا پہنچنا اور اس بیماری سے بچاؤ کے لیے چلائی جانے والی مہم سے متعلق منفی پروپیگنڈا ہے جس کی وجہ سے کئی والدین اپنے بچوں کو بیماری سے بچاؤ سے قطرے پلوانے سے انکاری ہیں۔

پاکستان میں صحت کے حکام اور مذہبی رہنما یہ کہہ چکے ہییں کہ پولیو ویکسین میں کوئی بھی مضر صحت چیز شامل نہیں ہیں اور یہ بچوں کی صحت مند زندگی کے لیے ضروری ہیں۔

حالیہ مہینوں میں انسداد پولیو کی مہم میں شامل رضارکاورں اور ان کی سکیورٹی پر مامور اہلکاروں کو جان لیوا حملوں کا سامنا رہا ہے جس میں 60 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG