اسلام آباد —
حکمران اتحاد میں شامل عوامی نیشنل پارٹی کے بعد اب حزب اختلاف کی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام (فضل الرحمان) ملک میں قیام امن کے لیے کل جماعتی کانفرنس کا انعقاد کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس سلسلے میں مختلف سیاسی، مذہبی اور قوم پرست جماعتوں سے رابطے کیے جا رہے ہیں۔
جمیعت کے رہنماؤں کے مطابق جمعرات کو ہونے والی نشست دراصل مقامی شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے ایک موثر و مربوط لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں سیاسی شخصیات کے علاوہ، قبائلی جرگے کے عمائدین بھی شرکت کریں گے۔
جمعیت کے مرکزی سینئیر رہنما سینیٹرمولانا غفور حیدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں شدت پسندی اور بد امنی کا خاتمہ صرف اور صرف بات چیت ہی سے ممکن ہے جیسا کہ پارلیمان کی منطور شدہ قرارد میں بھی کہا گیا ہے اس لیے پاکستانی طالبان کی مذاکرات کی پیش کش کا جواب مثبت طریقے سے دینا چاہیئے۔
’’اگر فوج واپس طلب کی جائے یا قیدیوں کو رہا کیا جائے یا عام معافی کا اعلان کیا جائے تو ایک مثبت پیغام جائے گا اور پھر پاکستان نام نہاد جنگ سے باہر ہو جائے تو 90 فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔‘‘
حکومت سے مذاکرات کی پیش کش کرنے کے باوجود کالعدم جنگجو گروہ تحریک طالبان پاکستان نے عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے منعقد کردہ کانفرنس کو مسترد کردیا تھا جس میں قیام امن کے لیے مذاکرات کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
تاہم عوامی نیشنل پارٹی سمیت حکومت میں شامل جماعتوں کا کہنا ہے کہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے وہ آئین و قانون کے تحت مذاکرات سے انکاری نہیں۔ گزشتہ دسمبر میں خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کے صاحبزادے اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کے مشیر ہارون بلور کہتے ہیں۔
’’اگر امریکہ افغان طالبان سے دوحہ اور دیگر مقامات پر بات چیت کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں اپنے لوگوں سے مذاکرات کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ کسی وجہ سے حکومت پاکستان سے ناراض ہیں۔‘‘
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کا طالبان کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ جمعرات کو متوقع کانفرنس پر شدت پسند کا ردعمل مثبت ہو۔ گزشتہ اے پی سی میں شرکت سے انکار کے بعد جماعت اسلامی نے اس کانفرنس میں آنے کی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
وزیر داخلہ رحمان ملک نے گزشتہ روز ہی مذاکرات سے متعلق طالبان کے رویے کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر جنگجو گروہ کے رہنما شدت پسندی ترک کردیں تو حکومت قانون اور آئین کے تحت انہیں معاف کرنے کا سوچ سکتی ہے۔
جمیعت کے رہنماؤں کے مطابق جمعرات کو ہونے والی نشست دراصل مقامی شدت پسندوں سے مذاکرات شروع کرنے کے لیے ایک موثر و مربوط لائحہ عمل تیار کرنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں سیاسی شخصیات کے علاوہ، قبائلی جرگے کے عمائدین بھی شرکت کریں گے۔
جمعیت کے مرکزی سینئیر رہنما سینیٹرمولانا غفور حیدری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ ملک میں شدت پسندی اور بد امنی کا خاتمہ صرف اور صرف بات چیت ہی سے ممکن ہے جیسا کہ پارلیمان کی منطور شدہ قرارد میں بھی کہا گیا ہے اس لیے پاکستانی طالبان کی مذاکرات کی پیش کش کا جواب مثبت طریقے سے دینا چاہیئے۔
’’اگر فوج واپس طلب کی جائے یا قیدیوں کو رہا کیا جائے یا عام معافی کا اعلان کیا جائے تو ایک مثبت پیغام جائے گا اور پھر پاکستان نام نہاد جنگ سے باہر ہو جائے تو 90 فیصد مسائل حل ہو جائیں گے۔‘‘
حکومت سے مذاکرات کی پیش کش کرنے کے باوجود کالعدم جنگجو گروہ تحریک طالبان پاکستان نے عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے منعقد کردہ کانفرنس کو مسترد کردیا تھا جس میں قیام امن کے لیے مذاکرات کو ترجیح دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔
تاہم عوامی نیشنل پارٹی سمیت حکومت میں شامل جماعتوں کا کہنا ہے کہ ملک میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے وہ آئین و قانون کے تحت مذاکرات سے انکاری نہیں۔ گزشتہ دسمبر میں خود کش حملے میں ہلاک ہونے والے سینیئر صوبائی وزیر بشیر احمد بلور کے صاحبزادے اور خیبر پختونخواہ کی حکومت کے مشیر ہارون بلور کہتے ہیں۔
’’اگر امریکہ افغان طالبان سے دوحہ اور دیگر مقامات پر بات چیت کر سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں اپنے لوگوں سے مذاکرات کر سکتے ہیں۔ یہ لوگ کسی وجہ سے حکومت پاکستان سے ناراض ہیں۔‘‘
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ جمعیت علماء اسلام کا طالبان کے لیے قدرے نرم گوشہ رکھنے کی وجہ سے ممکن ہے کہ جمعرات کو متوقع کانفرنس پر شدت پسند کا ردعمل مثبت ہو۔ گزشتہ اے پی سی میں شرکت سے انکار کے بعد جماعت اسلامی نے اس کانفرنس میں آنے کی آمادگی کا اظہار کیا ہے۔
وزیر داخلہ رحمان ملک نے گزشتہ روز ہی مذاکرات سے متعلق طالبان کے رویے کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اگر جنگجو گروہ کے رہنما شدت پسندی ترک کردیں تو حکومت قانون اور آئین کے تحت انہیں معاف کرنے کا سوچ سکتی ہے۔