حزب اختلاف کے رہنما عمران خان کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کے مستعفی اور نئے انتخابات کے مطالبے کے لیے منگل تک کے ’الٹی میٹم‘ اور سول نافرمانی کے اعلان کے بعد ملک کی سیاسی صورت حال پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔
پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت دیگر سیاسی قائدین کی طرف سے انتہائی اقدامات سے گریز کا مشورہ دیتے ہوئے سیاسی مفاہمت کی راہ اختیار کرنے پر زور دیا جا رہا ہے۔
سول نافرمانی کے اعلان کو غیر آئینی و غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے نواز انتظامیہ میں شامل عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس انتہائی اقدام کی وجہ تحریک انصاف کی دھرنے کے لیے ان کے بقول زیادہ لوگوں کو لانے میں ناکامی ہے۔
حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مرکزی ترجمان مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا۔
’’ان کی اپیل کا تعلق حکومت کے ساتھ نہیں ریاست کے ساتھ ہے ۔۔۔ اس قسم کی تحریک نو آبادیاتی دور میں ہوتی ہے، گاندھی صاحب نے کی تھی۔‘‘
سابق وزیراعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما یوسف رضا گیلانی موجودہ سیاسی بحران کی ذمہ داری نواز انتظامیہ پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے آئین و جمہوری نظام کی بھرپور حمایت کی یقین دہانی اور قومی اسمبلی میں واضح اکثریت ہونے کے باوجود حکومت نے تحریک انصاف کے انتخابی دھاندلیوں کے الزامات سے متعلق معاملات کو بہتر سیاسی انداز میں نمٹانے کی کوشش نہیں کی۔
’’لانگ مارچ یا دھرنوں سے حکومتیں نہیں جاتیں بلکہ اپنی غلطیوں سے جاتی ہیں۔ اپنی غلطیوں کے ازالہ کریں اور جو تاخیر کی ہے اس سے تناظر میں مفاہتی عمل کو تیز کریں۔‘‘
2013ء کے عام انتخابات کے بعد ہی سے تحریک انصاف نے چار حلقوں میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کرتی آ رہی تھی اور متعلقہ اداروں سے رجوع بھی کیا گیا مگر حزب اختلاف کی جماعت کے بقول کسی قسم کی پیش رفت نا ہونے کی صورت میں انھوں نے تمام انتخابی عمل کی جانچ پڑتال اور اس کے لیے دارالحکومت میں دھرنے کا فیصلہ کیا۔
سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں اور مبصرین کا کہنا ہے کہ سیاسی بحران میں مزید کشیدگی اور حکومت و احتجاج کرنے والی حزب اختلاف کی جماعتوں میں ٹکراؤ سے فوج کی مداخلت کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
پختون قوم پرست سیاسی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفندیار ولی کہتے ہیں کہ ملک میں جمہوری عمل کے تسلسل اور موجودہ سیاسی بحران کے حل کے لیے مذاکرات اور دونوں جانب سے لچک کا مظاہرہ کرنا ناگزیر ہے۔
’’دو فریقوں میں فاصلہ ہوتا ہے تو اگر ایک دو قدم چلے تو دوسری ایک قدم تو چلتا ہے نا۔ اگر کوئی یہ کہے کہ نہیں دوسرا ہی دس قدم چل کر میرے پاس آئے تو یہ تو ناممکن ہو گا۔ میرے خیال میں میاں صاحب کو پارلیمان کے ایوانوں کے اجلاس طلب کر کے ان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کریں۔‘‘
تحریک انصاف کے دھرنے سے صرف دو دن قبل ہی وزیر اعظم نے حزب اختلاف کی جماعت سے مذاکرات کی پیشکش کرتے ہوئے دھاندلیوں سے متعلق الزامات کے لیے تین رکنی عدالتی کمیشن کی تشکیل کا اعلان کیا۔
اس سلسلے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو وزارت قانون کی طرف سے خط بھی لکھا گیا مگر ابھی تک اس کا قیام عمل میں نا آ سکا۔