پاکستان میں انتخابات کا وقت قریب آتے ہی مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف میں الزام تراشی عروج پر پہنچ گئی ہے ۔ماہرین کے نزدیک دونوں جماعتوں کا طرزِ سیاست نہ صرف اُنھیں اندر سے کمزور کرے گا، بلکہ آئندہ انتخابات میں کارکردگی بھی متاثر ہو گی ۔
اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے اور 182 مرکزی نشستیں رکھنے والے صوبہ پنجاب پرسبقت کیلئے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی رسہ کشی جاری ہے اور دونوں جماعتوں کی قیادت الزامات کے ذریعے ایک دوسرے پر بھر پور حملے کر رہی ہے ۔ عوام کے دل میں دوسرے کیلئے نفرت اور اپنے لئے ہمدردی کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں ۔
نون لیگ کو دھچکا
تجزیہ کار اس صورتحال کو دونوں جماعتوں کیلئے انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات کیلئے خود کو اندر سے مضبوط کرنے کے بجائے الزام تراشی سے دونوں جماعتوں کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے ۔ اس کی واضح مثال مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اورسینیٹرسردار ذوالفقار کھوسہ اور پھر ان کے بیٹے سردار دوست محمد کھوسہ کے پارٹی رکنیت سے استعفے ہیں ۔ تازہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے نواز شریف سے ملنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ن کیلئے یہ بہت بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے ۔
مسلم لیگ ن میں فاروڈ بلاک کی افواہیں
دوسری جانب خیبر پختونخواہ میں بھی مسلم لیگ کی قیادت میں اختلافات عروج پر ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے دو سابق وزراء اعلیٰ خیبر پختونخواہ سردارمہتاب احمد خان اور پیر صابر شاہ کے مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر سے شدید اختلافات ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسٹر صفدر کو پارٹی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے اور سات اگست کو انہیں سردارمہتاب اور پیر صابر شاہ کے خلاف بیان دینے کی وجوہات بیان کرنا ہو گی ۔ اس تمام تر صورتحال میں مسلم لیگ ن کے اندر فاروڈ بلاک کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں ۔
تحریک انصاف بڑی جماعت ؟
اگر تحریک انصاف کی بات کی جائے تو کئی نامور اور تجربہ کار سیاستدانوں کی آمد کے بعد اسے بڑی جماعتوں میں شمار کیاجانے لگا ہے ۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کا بھی اہم کردار ہو گا لیکن بڑے ناموں میں اختلافات کی بھی مسلسل خبریں زیر گردش ہیں ۔ ملتان سے جاوید ہاشمی اور شاہ محمودقریشی کے اختلافات کی افواہیں زیر گردش رہتی ہیں ۔ قصور سے دو بڑے ناموں سردار آصف احمد علی اورخورشید محمود قصوری میں ٹکٹ کاجھگڑا چل رہا ہے ۔
لیاقت باغ، تحریر اسکوائر!
تیرہ اگست کو شیخ رشید کی دعوت پر عمران خان بھی راولپنڈی کےلیاقت باغ جلسے میں شرکت کیلئے جا رہے ہیں ۔شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے خلاف لیاقت باغ کو تحریر اسکوائر بنا دیں گے ۔ اس حوالے سے یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ دونوں جماعتوں کے اتحاد کا امکان ہے اور تحریک انصاف کے بہت سے رہنما اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کوآئندہ انتخابات میں صرف سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ دیہی سیاست ، برادری سسٹم اور وڈیرانہ نظام کو بھی شکت دینی ہو گئی۔ لہذا، اگر وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ الزام تراشی میں مصروف ہو گئی تو آئندہ انتخابات میں کامیابی اس کیلئے خواب ہی بن کر رہ جائے گا ۔
اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے اور 182 مرکزی نشستیں رکھنے والے صوبہ پنجاب پرسبقت کیلئے مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی رسہ کشی جاری ہے اور دونوں جماعتوں کی قیادت الزامات کے ذریعے ایک دوسرے پر بھر پور حملے کر رہی ہے ۔ عوام کے دل میں دوسرے کیلئے نفرت اور اپنے لئے ہمدردی کیلئے ہر حربہ استعمال کر رہی ہیں ۔
نون لیگ کو دھچکا
تجزیہ کار اس صورتحال کو دونوں جماعتوں کیلئے انتہائی خطرناک قرار دے رہے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ آئندہ انتخابات کیلئے خود کو اندر سے مضبوط کرنے کے بجائے الزام تراشی سے دونوں جماعتوں کی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے ۔ اس کی واضح مثال مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما اورسینیٹرسردار ذوالفقار کھوسہ اور پھر ان کے بیٹے سردار دوست محمد کھوسہ کے پارٹی رکنیت سے استعفے ہیں ۔ تازہ اطلاعات کے مطابق انہوں نے نواز شریف سے ملنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں مسلم لیگ ن کیلئے یہ بہت بڑا دھچکا قرار دیا جا رہا ہے ۔
مسلم لیگ ن میں فاروڈ بلاک کی افواہیں
دوسری جانب خیبر پختونخواہ میں بھی مسلم لیگ کی قیادت میں اختلافات عروج پر ہیں ۔ مسلم لیگ ن کے دو سابق وزراء اعلیٰ خیبر پختونخواہ سردارمہتاب احمد خان اور پیر صابر شاہ کے مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف کے داماد کیپٹن (ر) صفدر سے شدید اختلافات ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مسٹر صفدر کو پارٹی رکنیت سے ہاتھ دھونا پڑے اور سات اگست کو انہیں سردارمہتاب اور پیر صابر شاہ کے خلاف بیان دینے کی وجوہات بیان کرنا ہو گی ۔ اس تمام تر صورتحال میں مسلم لیگ ن کے اندر فاروڈ بلاک کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں ۔
تحریک انصاف بڑی جماعت ؟
اگر تحریک انصاف کی بات کی جائے تو کئی نامور اور تجربہ کار سیاستدانوں کی آمد کے بعد اسے بڑی جماعتوں میں شمار کیاجانے لگا ہے ۔ اور امید کی جا رہی ہے کہ آئندہ انتخابات میں اس کا بھی اہم کردار ہو گا لیکن بڑے ناموں میں اختلافات کی بھی مسلسل خبریں زیر گردش ہیں ۔ ملتان سے جاوید ہاشمی اور شاہ محمودقریشی کے اختلافات کی افواہیں زیر گردش رہتی ہیں ۔ قصور سے دو بڑے ناموں سردار آصف احمد علی اورخورشید محمود قصوری میں ٹکٹ کاجھگڑا چل رہا ہے ۔
لیاقت باغ، تحریر اسکوائر!
تیرہ اگست کو شیخ رشید کی دعوت پر عمران خان بھی راولپنڈی کےلیاقت باغ جلسے میں شرکت کیلئے جا رہے ہیں ۔شیخ رشید کا دعویٰ ہے کہ حکومت کے خلاف لیاقت باغ کو تحریر اسکوائر بنا دیں گے ۔ اس حوالے سے یہ خبریں بھی زیر گردش ہیں کہ دونوں جماعتوں کے اتحاد کا امکان ہے اور تحریک انصاف کے بہت سے رہنما اس کی مخالفت بھی کر رہے ہیں ۔
ماہرین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کوآئندہ انتخابات میں صرف سیاسی جماعتوں کو ہی نہیں بلکہ دیہی سیاست ، برادری سسٹم اور وڈیرانہ نظام کو بھی شکت دینی ہو گئی۔ لہذا، اگر وہ دیگر جماعتوں کے ساتھ الزام تراشی میں مصروف ہو گئی تو آئندہ انتخابات میں کامیابی اس کیلئے خواب ہی بن کر رہ جائے گا ۔