سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے نا اہل ہونے سے پیپلزپارٹی کو کتنا فائدہ ہوا اور کتنا نقصان ؟یہ بحث بدھ کو سارا دن جگہ جگہ سنائی دیتی رہی۔ بعض حلقوں کاخیال ہے کہ یہ تمام صورتحال پیپلزپارٹی کی حکمت عملی کا نتیجہ ہے، جبکہ بعض کا خیال ہے کہ اس سے پیپلزپارٹی کو نقصان بھی ہو سکتا ہے ۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ پیپلزپارٹی پر اچانک بجلی بن کر نہیں گرا بلکہ اس کیلئے ذہنی طور پر پیپلزپارٹی بالکل تیار تھی ۔یکم مئی کو یعنی سزا کے چار دن بعد ایک انٹرویو میں وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ 26 اپریل کو عدالت میں پیش ہوئے تھے تو اڈیالہ جیل جانے کو تیار تھے ، جیل جانے کا تمام سامان بھی اپنے ساتھ لائے تھے لیکن سپریم کورٹ نے چند سکینڈ کی سزا دے دی ۔
اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے علاوہ دیگر حریف جماعتوں کی جانب سے اکثر یہ تاثر سامنے آتا رہا ہے کہ پیپلزپارٹی سید یوسف رضا گیلانی کو سیاسی شہید کرانا چاہتی ہے ۔ناقدین کا خیال ہے کہ موجودہ دور حکومت میں پاکستان میں مہنگائی ، بے روزگاری بڑھ گئی ہے ، معاشی پالیسیاں بھی کامیاب نظر نہیں آتیں ، امن و امان کی صورتحال بھی بڑا چیلنج بن چکی ہے ،توانائی بحران ، بدعنوانی اور خارجہ پالیسی کے باعث پاکستان دنیا میں تنہا دکھائی دے رہا ہے ۔ غرض ملک کو ان گنت مسائل کا سامنا ہے ۔
مذکورہ صورتحال پیپلزپارٹی کیلئے ایک بڑا چیلنج ہے لہذا آنے والے انتخابات کیلئے اسے کوئی ایسا ایشو چاہیئے جس پر سیاست کی جائے اور اس کیلئے انہوں نے سید یوسف رضا گیلانی کا انتخاب کیا اور حکمت عملی کے تحت ان سے یہ کہلوایا گیا کہ وہ سپریم کورٹ کے حکم پر صدر کے خلاف سوئس حکومت کو خط نہیں لکھ سکتے کیونکہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے اور جب انہیں سزا ہو گی تو آئندہ انتخابات میں کہا جائے گا کہ اگر گیلانی کو نہ ہٹایا جاتا تو مسائل پر قابو پا لیا جاتا ۔ اس طرح آئندہ انتخابات میں یوسف رضا گیلانی کو ہیرو بنا کر پیش کیا جائے گا ۔
دوسری جانب رواں سال جنوبی پنجاب پیپلزپارٹی کیلئے مرکز نگاہ رہا ۔ صدر آصف علی زرداری نے موجودہ دور حکومت میں جنوبی پنجاب صوبے کے قیام کا اعلان کیا ۔ قومی اسمبلی میں قرارداد پیش کی گئی اور مسلم لیگ ن کو مجبور کیا گیا کہ پنجاب اسمبلی سے اس حوالے سے قرار داد پاس کرائی جائے اور ایسا ہی ہوا ۔ اس کیلئے صدر نے کمیشن بھی تشکیل دے دیا ۔ان اقدامات سے اس تاثر کو تقویت حاصل ہو چکی ہے کہ پیپلزپارٹی نے جنوبی پنجاب کے عوام کے دلوں میں جگہ بنا لی ہے۔ اگر کسی وجہ سے موجودہ حکومت میں یہ صوبہ نہیں بھی بن پاتا تو پیپلزپارٹی یہ جواز پیش کر سکتی ہے کہ اگر جنوبی پنجاب کے وزیراعظم کو نہ ہٹایا جاتا تو صوبہ بن جاتا ۔
اگر ملک کی حالیہ صورتحال کا جائزہ بھی لیا جائے تو بھی پیپلزپارٹی کیلئے یہ سودا گھاٹے کا نہیں ۔ چھبیس اپریل کے بعد اسے مخالفین کی جماعتوں کی طرف سے شدید دباؤ کا سامنا تھا ۔ آئے روز لانگ مارچ کی دھمکیوں اور دیگر تنقید سے اس کی جان چھوٹ گئی ہے ۔ اس کے علاوہ آئندہ انتخابات میں نگراں حکومت کےقیام کا عمل بھی اس کے لئے آسان ہو جائے گا کیونکہ بیسویں ترمیم کے مطابق وزیراعظم اور قائد حزب اختلافات کی مشاورت کے بعد نگراں سیٹ اپ قائم ہو سکتا ہے جبکہ گیلانی اور چوہدری نثار کے درمیان تعلقات انتہائی خراب ہو چکے تھے ۔
اس وقت توانائی کے بحران پر ملک کے سب سے بڑے صوبے میں پرتشدد مظاہرے بھی پیپلزپارٹی کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں اور اس مسئلے کی آڑ میں مسلم لیگ ن کی جانب سے اسے شدید تنقید کا سامنا ہے ۔ لہذا نئے وزیراعظم کی آمد سے دونوں جماعتوں کے درمیان اس مسئلے پر بھی مذاکرات کے دروازے کھل سکتے ہیں کیونکہ پیپلزپارٹی کی قیادت کا کہنا تھا کہ وہ بجٹ کے بعد ملک میں انتخابات کیلئے تیار ہے ، اگر وہ انتخابات کی بات کرتی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہے کہ مسلم لیگ ن اس سے مذاکرات پر تیار ہو جائے گی ۔
دوسری جانب بعض مبصرین کا یہ خیال ہے کہ اگر وزیراعظم چھبیس اپریل کے فیصلے کے بعد اخلاقی طور پر مستعفی ہو جاتے تو ان کیلئے زیادہ بہتر ہوتا ، وہ نہ صرف یہ مثال قائم کر کے اپنوں بلکہ کئی اصول پسند حریفوں کے دل بھی جیت لیتے ۔ اس دور میں جب میڈیا آزاد ہے اور حکومت کی کارکردگی پر اس کی کڑی نظر ہے لہذا اس کیلئے اب ایک ایک پل بوجھل ہوتا جائے گا ۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نئے وزیراعظم کو بھی خط لکھنے کا کہا جائے گا لیکن اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس کا رد عمل بھی مختلف نہیں ہو گا تو پیپلزپارٹی کے رویے سے اس کے اتحادی بھی تنگ آ سکتے ہیں ۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1