پاکستان میں ان دنوں ’جلسوں کی سیاست‘ زورں پر ہے ۔ اکتوبر کے آخری ہفتے سے نومبر کے آخری ہفتے تک ایک ماہ ہونے کو ہے۔ تقریباً تمام ہی سرگرم سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے جلسے کرچکی ہیں۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جلسوں کی بدولت ان جماعتوں کو عوامی قوت دکھا کر مخالف پارٹیوں کے ناراض رہنماؤں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کاکسی حد تک کامیاب فارمولا ہاتھ آگیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آئندہ آنے والے مہینے یعنی دسمبر میں بھی مختلف سیاسی جلسوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔
رواں ماہ کے آغازسے دو روز قبل تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لاہور میں ہونے والے جلسے نے ملکی سیاست میں ایسی ہلچل پیدا کی کہ ہر جماعت اسی طرز کے’ بگ شوز‘ دکھانے کی کوشش کرتی نظر آ رہی ہے ۔ اس سے دو روز پہلے مسلم لیگ ن بھی اپنا ایک جلسہ لاہور میں کرچکی تھی لیکن بقول سیاسی تجزیہ نگار، تحریک انصاف کے جلسے نے نون لیگ کے جلسے کا رنگ پھیکا کردیا تھا۔
لاہور جلسے سے جہاں تحریک انصاف کی مقبولیت میں تیزی سے اضافہ نوٹ کیا گیا تووہیں مختلف سیاسی جماعتوں کے کئی بڑے نام ، کارکنان اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والی اہم شخصیات تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر نے لگیں جن میں سابق گورنر پنجاب میاں اظہر، بریگیڈئیر (ر) مسعود شریف اور نامور صحافی شفقت محمود کے نام قابل ذکر ہیں ۔
تحریک انصاف کالاہور جلسہ سب سے زیادہ مسلم لیگ ن کے لئے متاثر کن ثابت ہوا ۔یہی وجہ ہے کہ اس نے 20 نومبر کو فیصل آباد میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا جس میں نہ صرف نواز شریف نے حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ وہیں نام لیے بغیر تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے پیچھے بھی کسی خفیہ طاقت کی نشاندہی کر ڈالی ۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن کا یہ جلسہ بہت سے روٹھے ہوئے پارٹی رہنماؤں اور کارکنان کو منانے میں انتہائی کارگر ثابت ہوا اور اس شہر میں تحریک انصاف کے سامنے بندھ کا کام کر گیا۔
فیصل آباد میں نواز شریف کے تیور دیکھ کربہت سے پرانے ساتھیوں کے ہاں ایک مرتبہ پھر ان کی اہمیت بڑھ گئی اور پھر سے پرانے مراسم بحال ہوتے دکھائی دیئے ۔مثلاً مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجاز الحق اور مسلم لیگ فنکشنل کے سربراہ پیر پگارا کے صاجزادے صدر الدین راشدی ماڈل ٹاؤن جا پہنچے ۔
ادھرعوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کے دل میں بھی نواز شریف کے لئے ’نرم گوشہ‘ محسوس کیا جا رہا ہے ۔ لہذا اس تمام تر تناظر میں لیگی دھڑوں کے اتحاد کی ضرورت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔
جمعرات کوچکوال میں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ایک مرتبہ پھر جلسہ عام منعقد کرکے عوام کے لہو کو گرمانے کی کوشش کی اور بہت سے اہم مقامی رہنماؤں نے تحریک انصاف میں شمولیت بھی اختیار کی ، اب دیکھنا یہ ہے کہ لاہور کی طرح یہاں بھی وہ دیگر سیاسی جماعتوں کے ناراض کارکنان اور عام لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔
جمعرات ہی کو سنی اتحاد کونسل نے بھی فیصل آباد میں سیاسی طاقت کا مظاہرہ کیا۔ کونسل کے چیئرمین صاجزادہ فضل کریم نے ملکی خود مختاری کے تحفظ کی بھر پور یقین دہانی کرائی ۔ انہوں نے امریکا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ پاکستان کو ناکام ریاست بنانے کی سازش میں مصروف ہے۔
انہوں نے کہا کہ سنی اتحاد کونسل اقتدار میں آ گئی تو پاکستان بھر میں کروڑوں ایکڑ سرکاری بنجر زمین غریب ہاریوں میں تقسیم کرے گی اور مزدور کی کم از کم تنخواہ پندرہ ہزار روپے مقرر کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ خودکش حملے کرنے والے جہادی نہیں بلکہ فسادی ہیں ،انہیں اقتدار ملا تو کسی بھی سیاسی ، مذہبی اور لسانی جماعت کے عسکری وِنگ بنانے پر مکمل پابندی عائد کردی جائے گی۔ 25 ایکڑ سے زائد سرکاری زمین پر ٹیکس وصول کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ کالا باغ ڈیم سمیت تمام آبی اور توانائی کے منصوبے ہنگامی بنیادوں پر مکمل کیے جائیں گے۔
رواں ماہ کے آخر میں ایک اور جلسہ جس پر تمام سیاسی نظریں مرکوز ہیں وہ آج سے تین روز بعدسندھ کے ضلع گھوٹکی میں ہوگا جس میں شاہ محمود قریشی اپنے آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کا اعلان کرنے جا رہے ہیں۔ عمران خان پہلے ہی یہ دعویٰ جبکہ مسلم لیگ ن کے صدر نواز شریف خواہش ظاہر کر چکے ہیں کہ قریشی ان کے سیاسی ہمسفر بنیں ، اب دیکھنا ہے کہ وہ ان دونوں جماعتوں میں سے کسی کا انتخاب کریں گے یا اپنی منزل کے حصول کیلئے کوئی تیسرا راستہ اختیارکرتے ہیں ۔
ملک میں جلسوں سے سیاسی جماعتوں کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ نے بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کی ٹھان لی ہے اور 23 دسمبر کو جنوبی پنجاب کے شہر ملتان میں جھنڈا گھاڑنے کی تیاریاں شروع کر دی ہیں جبکہ اس کے دو روز بعد عمران خان بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے یوم پیدائش یعنی پچیس دسمبر کو شہر قائد کراچی میں تبدیلی کے سونامی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
ماہرین کے مطابق ملک میں اگر چہ جلسوں کی سیاست سے سیاسی گرما گرمی اور جوڑ توڑ تو نظر آ رہی ہے تاہم فوری طور پر کوئی بھی تبدیلی کا امکان نہیں کیونکہ اس قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتیں اور اسمبلی کے باہر موجود جماعتیں آپس میں ہی پنجہ آزمائی میں مصروف ہیں اور ایک دوسرے پر تنقید کے تیر چلا رہی ہیں جبکہ اس تمام تر صورتحال کا فائدہ حکومت کو پہنچ رہا ہے اور وہ آہستہ آہستہ سینیٹ کے انتخابات میں اکثریت کی منزل تک کامیابی سے بڑھ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیے
مقبول ترین
1