پاکستان تحریک انصاف کی ’پیدائشی سرزمین ‘ اور ’مستقبل کا میدان ‘دونوں پنجاب ہے ۔ موجودہ سیاسی رجحان اور حالات اس بات کی جانب واضح اشارہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلم نواز کے لئے بھی سب سے بڑا درد سر پی ٹی آئی سے نمٹنا ہے۔ یہی وہ تنظیم ہے جو صوبے میں اسے” ٹف ٹائم“ دے سکتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ نہیں کہا جاسکتا کہ پاکستان تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں کتنی کامیابیاں سمیٹے گی۔ تاہم جس ’زورو شور والے جلسوں‘ کے ساتھ پی ٹی آئی سیاست میں داخل ہوئی ہے اس سے جنوبی پنجاب ، بلوچستان اور ہزارہ کی عوام کے دیرینہ مسائل پر جمی دھول چھٹ رہی ہے اور دوسری سیاسی جماعتوں کی بھی اس جانب توجہ مبذول ہو رہی ہے ۔
کہاوت مشہور ہے کہ پانی ہمیشہ کمزور جگہ سے راستہ تلاش کرتا ہے ۔ تحریک انصاف پر یہ کہاوت سچائی بن کرآشکارہ ہوئی ہے ۔ جنوبی پنجاب ملک کا ایک ایسا علاقہ ہے جہاں شاید سابقہ ادوار میں اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی کہ دی جانی چاہئے تھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں سرائیکی اور بہاولپور صوبوں کی تحریکوں نے زور پکڑاہوا ہے۔
جنوبی پنجاب کے علاقے چک ایف ٹریٹ حاصل پور ضلع بہاولپور کے رہائشی اور سیاسی کارکن ڈاکٹر محمد امجد نے وی او اے کے نمائندے سے تبادلہ خیال میں کہا” اس وقت جنوبی پنجاب کے لوگوں کا رجحان ”تبدیلی “کا نعرہ لگانے والی تحریک انصاف کی جانب ہے ۔ یہ رجحان کا ہی نتیجہ ہے کہ جنوبی پنجاب کی نمایاں شخصیات بھی تحریک کے حق میں بولتی نظر آرہی ہیں ورنہ اس سے قبل جنوبی پنجاب مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کا گڑھ تھا۔
اسی علاقے کے ایک اور رہائشی اور تحریک انصاف کے دیرینہ کارکن میاں محمد زاہد کے مطابق ”ماضی میں یہاں کی سیاست پر ” مخدوموں “ کا غلبہ رہا ہے ۔ مخدوم شاہ محمود قریشی ، مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم سید یوسف رضا گیلانی جنوبی پنجاب سے ہی اسمبلیوں تک پہنچتے رہے ہیں۔ اب چونکہ مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود قریشی تحریک انصاف میں شامل ہوچکے ہیں لہذااسے مسلم لیگ ن اور پی پی دونوں کا یکساں نقصان کہا جارہا ہے۔ جب مخدوم جاوید ہاشمی اور مخدوم شاہ محمود قریشی تحریک انصاف کیلئے مل کر مہم چلائیں گے تونہ صرف اس علاقے میں قائم وزیراعظم کا حلقہ متاثر ہو گا بلکہ ان کے صاحبزادے جوشاہ محمو د قریشی کی خالی کردہ نشست پر کامیابی کیلئے پر امید نظر آتے ہیں ان کے لئے بھی مشکلات کھڑی ہوں گی اورمقابلے کی فضاء پیدا ہونے کا امکان ہے۔“
جنوبی پنجاب میں گہرا اثرورسوخ رکھنے والے افراد کی تحریک انصاف میں شمولیت کو دیکھتے ہوئے دیگر سیاسی جماعتوں نے اس علاقے کے مسائل پر توجہ دینا شروع کردی ہے جس کی تازہ مثال جمعیت علماء اسلام اور ایم کیو ایم کی جانب سے سرائیکی صوبہ کی حمایت ہے ۔23 دسمبر کو ملتان میں جلسے کے دوران ایم کیو ایم نے اس علاقے کے لئے بہت سے پرکشش اعلانات بھی کئے ۔ اس کے علاوہ وزیراعظم نے پیر کو صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سرائیکی صوبہ کی حمایت پر ایم کیو ایم و جے یو آئی کا شکریہ ادا کر کے یہ یاد دلانے کی کوشش کی ہے کہ پیپلزپارٹی نے پہلے سے ہی اس ایشو کو منشور میں شامل کر رکھا ہے ۔ منگل کو صدر زرداری نے بھی گڑھی خدا بخش میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے جنوبی پنجاب کی عوام کے حقوق کی بات کی اور کہا کہ دیگر قوموں کی طرح یہاں کے لوگوں کو بھی شناخت دی جائے گی ۔
پیر کو ہی مسلم لیگ ن کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب کو پارٹی کی سطح پر شمالی اور جنوبی پنجاب کے د و حصوں میں تقسیم کیا جائے گا ۔اس موقع پر نواز شریف نے یہ اعلان بھی کیا کہ جو رہنما فنڈز کے نہ ملنے پر ناراض ہیں ان سے بات کی جائے گی اور نوا زشریف خود روٹھے کارکنان کو منانے پشاور اور دیگر شہروں میں جائیں گے ۔ اس کے علاوہ نچلی سطح سے اوپرتک ضلع،صوبہ اورمرکز میں باقاعدہ انتخابی عمل کے ذریعے اپنے عہدیداروں کا چناؤبھی کیا جائے گا ۔
توجہ کا دوسرا مرکز : بلوچستان
اگر چہ بلوچستان کے مسائل پر پیپلزپارٹی نے پہلے ہی بلوچستان پیکیج اور دیگر مراعات کا اعلان کر رکھا تھا اور مسلم لیگ ن بھی اس حوالے سے کافی متحرک نظر آ رہی تھی تاہم عملی طور پر تاحال ایسی کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آ ئی جس سے یہ کہا جائے کہ بلوچ عوام کا احساس محرومی دور ہوتا نظر آرہا ہے ۔ پچیس دسمبر کو عمران خان نے کراچی کے جلسے عام سے خطاب کے دوران بلوچستان کا بطور خاص ذکر کیا اور 23مارچ کو کوئٹہ میں جلسے کا اعلان کیا جس کے اگلے روز نواز شریف نے طلال بگٹی سے رابطہ کیا اور انہیں ہر مسائل کے حل کیلئے ہر طرح کی یقین دہانی کرائی ۔ ماہرین کے مطابق جیسے جیسے عمران خان کا کوئٹہ کا جلسہ قریب آئے گا بلوچستان کے مسائل مزید اجاگر ہوں گے ۔
توجہ کا طالبہ : ہزارہ ڈویژن
17 دسمبر کو ہری پورمیں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے صوبہ ہزارہ کے اعلان پرمیڈیاں ضلع ایبٹ آباد کے رہائشی نوید اختر اعوان نے خوشدلی وی او اے سے رائے زنی کے دوران امکان ظاہر کیا کہ ”آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف اس علاقے میں مزید متحرک ہو سکتی ہے۔ خیبر پختونخواہ کا یہ علاقہ مسلم لیگ ن کا گڑھ سمجھا جاتا تھا تاہم اٹھارویں ترمیم میں سرحد کا نام خیبر پختونخواہ رکھنے جانے پر مسلم لیگ ن کی حمایت سے یہاں کے لوگ ن لیگ سے سخت ناراض نظر آتے ہیں اور یہ تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کیلئے نادر موقع ہے کہ وہ یہاں اپنی ساکھ قائم کر سکتے ہیں ۔ “
ادھرتحریک صوبہ ہزارہ کے ایک عہدیدار اختر شیخ کا کہنا ہے کہ” تیس دسمبر کو ملتان میں ہونے والے جلسے میں متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما الطاف حسین بھی صوبہ ہزارہ کی حمایت کر چکے ہیں ۔ ان اعلانات کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہے کہ آئندہ انتخابات میں جنوبی پنجاب ، بلوچستان اورہزارہ ڈویژن سیاسی جماعت کا مرکز نگاہ ہوں گے۔ “