وفاق میں سیاسی صورتحال کے بعد اب سب کی نظریں پنجاب پر لگی ہیں۔ اِسی تناظر میں وزیراعظم عمران خان نے پیر کے روز وزیراعلٰیٰ پنجاب عثمان بزدار اور نئے تعینات ہونے والے گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ کو اسلام آباد طلب کر لیا ہے۔
سیاسی مبصرین کی رائے میں ایسا بہت مشکل ہے کہ قومی اسمبلی تحلیل کر دی جائے اور پورے ملک میں انتخابات کا کہہ دیا جائے لیکن سب سے بڑے صوبے کی اسمبلی اپنا کام کرتی رہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کا کہنا ہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحریکِ انصاف اپنی اکثریت کھو چکی تھی۔ سابق گورنر پنجاب کی پریس کانفرنس نے سب کچھ کھول کر رکھ دیا ہے جس میں اُنہوں نے کہا کہ انہیں کہا گیا کہ چوہدری پرویز الٰہی اپنی اکثریت کھو چکے ہیں، آپ اجلاس ملتوی کر دیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ یہ معاملہ ایک مرتبہ اُکھڑ گیا ہے جو مرمت ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ لہذا، سیاسی جماعتوں کے پاس اَب ایک ہی آپشن ہے کہ وہ انتخابات کی طرف جائیں۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ صوبہ پنجاب میں اب کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہی۔ بغاوت کی صورتِحال تو خود حکمران جماعت کے اندر تھی۔ اُن کے بقول پاکستان میں بے اصولی کی سیاست کی حالت یہ ہے کہ ایک شخص کو پاکستان کا وزیرِ اعظم کھلم کھلا ڈاکو قرار دیتا رہا۔ اوراپنی ہی جماعت کے184 اراکین کو چھوڑ کر ایک ایسے شخص کو نامزد کیا ہے جس کے بارے میں اُن کے تحفظات تھےجس کا ذکر گورنر پنجاب نے بھی کیا ہے۔ اُن کے بقول اُنہیں پنجاب اسمبلی قائم رہتی نظر نہیں آ رہی۔ قومی اسمبلی ٹوٹ چکی ہے، معاملہ عدالت میں چلا گیا ہے۔ بات انتخابات کی طرف جا رہی ہے تو یہ اسمبلی بھی اِنہیں توڑنی پڑیگی۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار احمد ولید سمجھتے ہیں کہ اتوار کے روز پاکستان تحریکِ انصاف نے جو وفاق میں کیا ، اُن کا منصوبہ تو یہی تھا کہ پنجاب میں بھی کچھ ایسا ہی کیا جائے۔ لیکن ایسا ممکن نہیں رہا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ اَب چونکہ اسپیکر صاحب کے ہاتھ سے گیم نگل گئی ہے جس کا اندازہ حکومت کو بھی ہے کہ یہ معاملہ اب اتناآسان نہیں ہے۔
اُن کے بقول جس خط کا ذکر قومی اسمبلی میں کیا گیا ہے اِس کا ذکر پنجاب اسمبلی میں نہیں کر سکتے جس کی بنیاد پر پنجاب اسمبلی بھی ختم کر دی جائے۔ احمد ولید سمجھتے ہیں کہ عدالتِ عظمٰی کے کیس کا فیصؒہ اگر اِس طرح کا آ جاتا ہے کہ الیکشن کرائے جائیں اورآگے چلیں، تو اس صورت میں نہ صرف پنجاب میں بلکہ کے پی کے، سندھ اور بلوچستان میں بھی اسمبلیاں تحلیل کرنا پڑیں گی۔
سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں ایوانِ صدر کا کردار بہت اہم ہے۔ اگر وہ فریق بن کر معاملات آگے چلائیں گے تو آگے نہیں چلیں گے۔ اُن کا کہنا تھا کہ نگران وزیراعظم کے لیے قائدِ حزبِ اختلاف سے مشاورت ضروری ہے۔ وزیراعظم نے حالات یہاں تک پہنچا دیے ہیں کہ حزب اختلاف اُن سے مشاورت کے لیے تیار نہیں ہے۔ اگر ڈیڈ لاک کی یہی صورتحال رہی تو معاملات اِن کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ قومی اسمبلی توڑ دی جائے اور انتخابات کا اعلان کر دیا جائے؛ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں اِس طرح کی کوئی مثال پہلے موجود نہیں ہےکہ ایک اسمبلی کے انتخابات ہو رہے ہوں اور باقی اسمبلیوں کے نہ ہو رہے ہوں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتیں پہلے دِن سے یہ مطالبہ کر رہی تھیں کہ آزادنہ، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انتخابات ہونے چاہیں۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ آج حکومت کہہ رہی ہے کہ نئے انتخابات کی طرف جایا جائے جبکہ آج سے دس روز قبل وزیراعظم صاحب یہ کہہ رہے تھےکہ قبل ازوقت انتخابات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
اُن کے بقول حالات اَب اِس نہج پر آ گئے ہیں کہ اگر سیاستدانوں نے سنجیدگی ظاہر نہ کی اور انتخابات کی طرف کوئی موثر عملدرآمد نہ ہوا تو پھر معاملات اِن کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔
احمد ولید کہتے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت نے وفاق میں بات بہت زیادہ چھپا کر رکھی اور پنجاب میں بھی ایسا ہی کیا، لیکن سابق گورنر پنجاب نے واضح کر دیا کہ اُنہیں کہا جا رہا تھا کہ اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں، جس کا چوہدری سرور نے خود کہا کہ اُنہوں نے غیر آئینی بات ماننے سے انکار کر دیا۔
احمد ولید کے بقول پاکستان تحریکِ انصاف اور ق لیگ کےنمبر پورے نہیں ہیں جس کے باعث وہ کچھ ایسا سوچ رہے ہیں کہ وفاق کی طرز پر کچھ یہاں بھی کیا جائے۔ اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ پیر کے روز عدالتِ عالیہ کا مختصر فیصلہ متوقع ہے ۔ اُس کے مطابق وہ اپنا اگلا لائحہ عمل بنائیں گے۔
واضح رہے کہ عدالتِ عظمٰی نے اتوار کے روز کیس کی سماعت کے دوران ریمارکس دیے تھے کہ پنجاب میں امن وامان کو یقینی بنایا جائے۔ وزیراعلٰی کے انتخاب میں سیاسی جماعتیں امن وامان کو برقرار رکھیں۔
خیال رہےکہ پنجاب اسمبلی میں اتوار کے روز نئے قائدِ ایوان کا انتخاب ہونا تھا جس میں حزبِ اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے حمزہ شہباز کو اپنا مشترکہ امیدوار جبکہ تحریکِ انصاف اور ق لیگ نے پرویز الٰہی کو اپنا مشترکہ امیدوار نامزد کر رکھا تھا۔ اجلاس کی کارروائی کچھ ہی دیر بعد ہنگامہ آرائی کے باعث چھ اپریل تک ملتوی کرنا پڑی۔
صوبہ پنجاب کے ممکنہ سیاسی منظر نامے پر گفتگو کرتے ہوئے احمد ولید نے کہا کہ اگر پنجاب میں نئے الیکشن ہوتے ہیں تو ن۔ لیگ ایک مضبوط جماعت بن کر سامنے آ سکتی ہے۔
اُنہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بزدار حکومت کی کارکردگی بہت اچھی نہیں رہی، جس کا اظہار پی ٹی آئی کے ارکان اور دیگر افراد بھی کرتے رہے ہیں اور جس کے باعث پی ٹی آئی کی سیاسی کارکردگی پر برا اثر پڑ سکتا ہے۔
احمد ولید کے بقول پی ٹی آئی کے وزراء بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ عثمابن بزدار کی کارکردگی کے باعث وہ پنجاب کھوتے جا رہے ہیں۔ پیپلز پارٹی سے متعلق بات کرتے ہوئے اُنہوں ے کہا کہ وہ کچھ لوگ اپنے ساتھ ملا رہے ہیں لیکن اِس کے باوجود اُن کے لیے جگہ بنانا مشکل ہو گا۔