پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں جاری ہلچل پیر سے شروع ہونے والے نئے سال میں شدت اختیار کرتی نظر آتی ہے جس میں پہلے سے مختلف اندرونی اور بیرونی چینلجوں کی شکار مسلم لیگ ن کی حکومت کو مزید دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور غیر جانبدار حلقوں کے مطابق سیاسی درجہ حرارت میں بڑھتا ہوا اضافہ ملک کے سیاسی عمل کے لیے مضر بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
حکمران جماعت کی قیادت کے خلاف عدالتی کارروائیوں اور طرز حکمرانی سمیت مختلف معاملات 2017ء میں حزب مخالف کی تنقید کا محور رہے ہیں اور اب تقریباً اپوزیشن کی سب ہی جماعتیں حکومت کے خلاف متحد ہو کر اس کے خلاف نئے احتجاج کی تیاری کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
ایک روز قبل لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری کی طرف سے بلائی گئی کل جماعتی کانفرنس میں دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سمیت حزب مخالف کی متعدد پارٹیوں کے راہنما شریک ہوئے تھے اور انھوں نے 2014ء میں ماڈل ٹاؤن میں عوامی تحریک کے کارکنوں کے خلاف پولیس کی کارروائی میں ہونے والی ہلاکتوں کی ذمہ داری صوبائی حکومت کے سربراہ اور وزیرقانون پر عائد کرتے ہوئے وزیراعلیٰ شہباز شریف اور صوبائی وزیر رانا ثنااللہ سے سات جنوری تک مستعفی ہونے کا مطالبہ بھی کیا تھا۔
اس کانفرنس کے شرکا نے اتفاق کیا تھا کہ اگر یہ شخصیات مستعفی نہیں ہوتیں تو سات جنوری کے بعد احتجاجی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔
حکومتی جماعت کے راہنماؤں کی طرف سے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ اس طرح کے اتحاد نہ ماضی میں کارگر ہوئے اور ان کے بقول نہ آئندہ کچھ کر سکیں گے اور حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی۔
اسی دوران مرکز میں بھی حکومت کو حزب مخالف کی طرف سے دباؤ کا سامنا ہے جس کی وجہ قبائلی علاقوں کی صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے سمیت دیگر اصلاحات سے متعلق قانون سازی کا مسودہ ایوان میں پیش نہ کرنا ہے۔
حکومت کی دو حلیف جماعتیں جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پختونخواہ ملی عوامی پارٹی اس انضمام کے خلاف ہیں جن کے تحفظات دور کرنے کے لیے اب تک ہونے والی مشاورت بھی بے نتیجہ رہی ہے۔
اس ساری صورتحال کے تناظر میں سیاسی امور کے سینیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ جہاں حکومت کے لیے مشکلات بڑھ سکتی ہیں وہیں سیاسی کشمکش میں پیدا ہونے والی شدت ملک میں سیاسی عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
اتوار کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا اگر سڑکوں پر احتجاج ہو گا تو اس کے اثرات بھی ملک کے لیے مضر ہوں گے۔
"اس سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بجائے اس سارے معاملے کو عدالتوں پر چھوڑیں اور وہ جو فیصلہ کریں اسے تسلیم کریں۔ عدالتیں بڑے فیصلے کر چکی ہیں۔ وہ وزیراعظم کو گھر بھیج چکی ہیں۔ لہذا استعفوں کا مطالبہ غیر معقول ہے۔ اس معاملے پر عدالت سے رجوع کرنا چاہیے۔"
مسلم لیگ ن کے سینیئر راہنما اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کے سعودی عرب جانے کے دو روز بعد ہی اس جماعت کے قائد اور سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اتوار کو ریاض پہنچ گئے جس سے ایسی قیاس آرائیاں سامنے آئی ہیں کہ وہ سعودی شاہی خاندان کے اثرورسوخ کو استعمال میں لاتے ہوئے ماضی میں فوجی صدر پرویز مشرف سے کیے جانے والے قومی مصالحتی آرڈیننس جیسے کسی معاہدے کے ذریعے ملک میں اپنے خلاف قائم مقدمات سے بچنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
تاہم مسلم لیگ ن ان قیاس آرائیوں کو بے بنیاد افواہیں قرار دے کر مسترد کرتی ہے اور اس کے راہنماؤں کا کہنا ہے یہ دورہ سعودی فرمانروا کی دعوت پر کیا گیا ہے اور اس میں مسلم دنیا کو درپیش چینلج کے بارے میں مشاورت کی جانی ہے۔