بین الاقوامی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی ٹیم کے سربراہ جیفری فرانکس کا کہنا ہے کہ پاکستان کی اقتصادی صورتحال کو مضبوط بنانے کے لیے نواز شریف انتظامیہ کے مجموعی طور پر اقدامات ’’تسلی بخش‘‘ ہیں۔
انہوں نے یہ بات دبئی میں پاکستانی حکام سے مشاورت کے بعد جاری ایک بیان میں کہی۔ اس اجلاس میں پاکستان کے لیے 6.7 ارب ڈالرز کے قرضے سے متعلق ملک کے اقتصادی و توانائی کے شعبوں میں اصلاحات کے بارے میں حکومت کے اقدامات کا جائزہ لیا گیا۔
اگرچہ اس جائزے کا دائرہ کار جون تک حکومتی اقدامات تک محدود ہے تاہم جیفری فرانکس کا بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا جب نواز شریف انتظامیہ کو اپنے 15 ماہ کے اقتدار میں شدید ترین سیاسی بحران کا سامنا ہے۔
حزب اختلاف کی جماعت تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے گزشتہ ہفتے سے اسلام آباد میں دھرنا دے رکھا ہے اور 2013 کے عام انتخابات میں دھاندلیوں کے الزامات کو بنیاد بنا کر وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔
حکومت اس مطالبے کو ماورائے آئین اور ملک کی اقتصادی ترقی کے لئے نقصان دہ قرار دیتی ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کہتے ہیں۔
’’برادر ملک چین کے ساتھ ہم اقتصادی راہداری کے بہت بڑے منصوبے لگانے چلے ہیں، موٹر ویز بننے لگے ہیں جس سے ملک کا نقشہ بدل جائے گا۔ اس موقع پر آپ سیاسی عدم استحکام پیدا کرکے سرمایہ کاروں کو بھگانا چاہتے ہیں، ملک کا کیا نقشہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں حکومت اور احتجاج کرنے والی جماعتوں کے درمیان کسی تصادم کو جمہوری نظام اور آئین کے لیے نقصان دہ گردانتی ہیں اور دونوں فریقین میں مفاہمت کی کوششیں کررہی ہیں۔ پارلیمان میں حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید خورشید شاہ نے مختلف سیاسی قائدین سے ملاقات کے بعد کہا۔
’’ہم سب جماعتیں آئین کے تحفظ و پاسداری پر یکجا ہیں۔ جمہوریت کی بقا و سالمیت کے لیے ہم سب ایک ہیں۔ اس پارلیمانی سسٹم کو قائم رکھنے کے لیے ایک ہیں۔‘‘
حزب اختلاف کے احتجاج سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران سے کراچی اسٹاک ایکسچینج میں مجموعی طور پر ایک ہزار پوائنٹس کی مندی دیکھی گئی جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں بھی کمی واقع ہو چکی ہے۔
اسٹاک ایکسچینج پر نظر رکھنے والی ٹاپ لائن سیکورٹیز کے چیف ایگزیکٹو محمد سہیل کا وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ صرف مارشل لا کی صورت ہی میں آئی ایم ایف کی طرف سے قرضے کی فراہمی رک سکتی ہے۔
’’اگر ستمبر تک معاملات حل ہوجاتے ہیں تو آئی ایم ایف کو قسط جاری کرنے میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ اگر حکومت کا ڈھانچہ بنے تو شاید وہ صورتحال کا سنجیدہ جائزہ لیں۔ اگر جمہوریت رہتی ہے اور کسی اور شکل میں رہتی ہے تو بھی آئی ایم ایف کو کوئی تشویش نہیں۔‘‘
آئی ایم ایف ٹیم کے سربراہ کے مطابق معاشی اعتبار سے مختلف شعبوں میں عمومی طور پر بہتری دیکھنے میں آئی ہے جن میں شرح نمو میں اضافہ، مہنگائی میں کمی اور نجی شعبے میں قرضوں کی فراہمی شامل ہیں۔
پاکستان کے اقتصادی اقدامات سے متعلق آئی ایم ایف کے حکام اب بھی جائزہ لے رہے ہیں اور ان کی مثبت رپورٹ پر قرضے کی ایک اور قسط کا اجرا ممکن ہوگا۔