اسلام آباد —
متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کی طرف سے منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں کراچی میں بڑھتی ہوئی بدامنی کے پیش نظر وہاں کے سلامتی کے امور پاکستان آرمی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
جماعت کے سینیئر رہنما فاروق ستار نے پارلیمان کے ایوان زیریں میں یہ مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ ملک کے اقتصادی مرکز میں بڑھتی ہوئی بد امنی کے واقعات پر قابو پانے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہوچکی ہیں اور پولیس اور رینجرز کا کردار اس سلسلے میں ’’جانبدار یا غیر فعال‘‘ ہے۔
’’ہمارے ساتھیوں سمیت سیاسی ورکروں کے قتل ہورہے ہیں۔ تاجروں کو بھتہ نا دینے اور اغواء کی رقم نا دینے پر قتل کررہے ہیں۔ زمینوں اور علاقوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ نو گو ایریا میں تبدیل کیا جارہا ہے اور آج لوگوں پر راکٹ برسائے جارہے ہیں۔‘‘
قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ جمہوری اور آئینی ہے اور فوری طور پر بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف موثر کارروائی نا کرنے کی صورت میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں جو کہ ملک کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
’’ہم نے کوئی امریکہ یا برطانیہ یا یو این کی فوج بلانے کا مطالبہ تو نہیں کیا۔ بنیادی حقوق کو پامال کیے بغیر کوئی راستہ نکالیں۔ مجھے تو راستہ چاہیے۔ اگر گزشتہ حکومتیں رینجرز کو بلا سکتی ہیں تو ہم فوج کیوں نہیں۔ رینجرز کوئی سولین فورس نہیں۔‘‘
ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی اور باثر جماعت ہے اور پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ اور وفاق میں سابقہ مخلوط حکومت کا حصہ رہ چکی ہے۔
تاہم وفاقی وزیر قادر بلوچ کہتے ہیں کہ صرف ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ہی کسی مخصوص علاقے میں فوج طلب کی جاسکتی ہے اور اس صورت میں وہاں بنیادی حقوق بھی معطل کرنا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی صورتحال میں بہتری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں اضافے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے وہاں کی بااثر سیاسی جماعتوں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
’’ہمارے یہاں بدقسمتی ہے کہ ایک کی حکومت ہے تو دوسرا اس کی مخالفت میں لگا ہوا ہے۔ ایک طرف شور مچاتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہوا اور دوسری طرف سے خود ان کے لوگ (یہ کارروائیاں) کررہے ہوتے ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں بھی کہہ چکی ہے کہ کراچی کے امن و امان کے بگاڑ میں سیاسی جماعتوں کے عسکری دھڑے ملوث ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان کا کہنا ہے کہ کراچی میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تجربہ کار اہلکاروں کی تقرری سے بھی بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف موثر اور نتیجہ خیز کارروائیاں ممکن ہوسکتی ہیں۔
’’کراچی کا اصل مسئلہ ہے کہ وہاں کے جرائم پیشہ افراد نے کرائم ایکانومی بنالی ہے اس پر ضرب لگانی ہوگی اور جو لوگ عوام کے ووٹ سے آئے ہیں ان کا اس طرح ہاتھ کھڑے کر دینا نا صرف عوام کے مینڈیٹ کی، آئین کی اور پارلیمان کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی توہین بھی ہے۔‘‘
ایم کیو ایم کی طرف سے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب حال ہی میں ایک بار پھر کراچی میں بدامنی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور دو متحارب گروہوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے شہر کے علاقے لیاری سے سینکڑوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔
جماعت کے سینیئر رہنما فاروق ستار نے پارلیمان کے ایوان زیریں میں یہ مطالبہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ ملک کے اقتصادی مرکز میں بڑھتی ہوئی بد امنی کے واقعات پر قابو پانے میں ’’مکمل طور پر ناکام‘‘ ہوچکی ہیں اور پولیس اور رینجرز کا کردار اس سلسلے میں ’’جانبدار یا غیر فعال‘‘ ہے۔
’’ہمارے ساتھیوں سمیت سیاسی ورکروں کے قتل ہورہے ہیں۔ تاجروں کو بھتہ نا دینے اور اغواء کی رقم نا دینے پر قتل کررہے ہیں۔ زمینوں اور علاقوں پر قبضہ کررہے ہیں۔ نو گو ایریا میں تبدیل کیا جارہا ہے اور آج لوگوں پر راکٹ برسائے جارہے ہیں۔‘‘
قومی اسمبلی کے اجلاس کے بعد وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں فوج بلانے کا مطالبہ جمہوری اور آئینی ہے اور فوری طور پر بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف موثر کارروائی نا کرنے کی صورت میں حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں جو کہ ملک کے لیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
’’ہم نے کوئی امریکہ یا برطانیہ یا یو این کی فوج بلانے کا مطالبہ تو نہیں کیا۔ بنیادی حقوق کو پامال کیے بغیر کوئی راستہ نکالیں۔ مجھے تو راستہ چاہیے۔ اگر گزشتہ حکومتیں رینجرز کو بلا سکتی ہیں تو ہم فوج کیوں نہیں۔ رینجرز کوئی سولین فورس نہیں۔‘‘
ایم کیو ایم کراچی کی سب سے بڑی اور باثر جماعت ہے اور پیپلز پارٹی کی صوبہ سندھ اور وفاق میں سابقہ مخلوط حکومت کا حصہ رہ چکی ہے۔
تاہم وفاقی وزیر قادر بلوچ کہتے ہیں کہ صرف ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد ہی کسی مخصوص علاقے میں فوج طلب کی جاسکتی ہے اور اس صورت میں وہاں بنیادی حقوق بھی معطل کرنا ہوں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ کراچی کی صورتحال میں بہتری قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائیوں میں اضافے سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے وہاں کی بااثر سیاسی جماعتوں کو مل کر لائحہ عمل طے کرنا ہوگا۔
’’ہمارے یہاں بدقسمتی ہے کہ ایک کی حکومت ہے تو دوسرا اس کی مخالفت میں لگا ہوا ہے۔ ایک طرف شور مچاتے ہیں کہ ہم پر ظلم ہوا اور دوسری طرف سے خود ان کے لوگ (یہ کارروائیاں) کررہے ہوتے ہیں۔‘‘
سپریم کورٹ اپنے ایک فیصلے میں بھی کہہ چکی ہے کہ کراچی کے امن و امان کے بگاڑ میں سیاسی جماعتوں کے عسکری دھڑے ملوث ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر بابر اعوان کا کہنا ہے کہ کراچی میں پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تجربہ کار اہلکاروں کی تقرری سے بھی بدامنی پھیلانے والوں کے خلاف موثر اور نتیجہ خیز کارروائیاں ممکن ہوسکتی ہیں۔
’’کراچی کا اصل مسئلہ ہے کہ وہاں کے جرائم پیشہ افراد نے کرائم ایکانومی بنالی ہے اس پر ضرب لگانی ہوگی اور جو لوگ عوام کے ووٹ سے آئے ہیں ان کا اس طرح ہاتھ کھڑے کر دینا نا صرف عوام کے مینڈیٹ کی، آئین کی اور پارلیمان کی خلاف ورزی ہے بلکہ اس کی توہین بھی ہے۔‘‘
ایم کیو ایم کی طرف سے یہ مطالبہ ایک ایسے وقت سامنے آیا جب حال ہی میں ایک بار پھر کراچی میں بدامنی کے واقعات میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور دو متحارب گروہوں کے درمیان تصادم کی وجہ سے شہر کے علاقے لیاری سے سینکڑوں افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے تھے۔