پاکستان میں جمعہ سیاسی اعتبار سے ایک متحرک دن رہا جس میں ایک طرف تو قومی اسمبلی کے سابق اسپیکر ایاز صادق سمیت تین دیگر نئے ارکان اسمبلی نے حلف اٹھایا تو دوسری طرف تقریباً 85 دنوں کے بعد متحدہ قومی موومنٹ کے ارکان اسمبلی نے اپنے استعفے واپس لے کر قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کی۔
ایاز صادق نے 2013ء کے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو شکست دی تھی لیکن ان کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں دائر کی گئی پی ٹی آئی کی شکایتوں پر اگست میں ٹربیونل نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ان کی رکنیت منسوخ کرتے ہوئے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دیا تھا۔
11 اکتوبر کو ہونے والے انتخاب میں ایاز صادق نے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار علیم خان کو شکست دی اور رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
رکنیت کا حلف اٹھانے کے بعد قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے ایاز صادق کا کہنا تھا کہ حزب مخالف کی جماعت نے ان پر دھاندلی کے بے بنیاد الزامات لگائے جو ٹربیونل کے فیصلے میں بھی ثابت نہیں ہوئے۔
"ٹربیونل نے اپنے فیصلے میں کہیں نہیں لکھا کہ میں نے یا میرے پولنگ ایجنٹ یا ملسم لیگ ن نے دھاندلی کی۔"
ادھر جمعہ کو ہی پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک بار پر لاہور کے حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخاب سے متعلق شکایات لے کر الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے جا رہے ہیں۔
انھوں نے الزام عائد کیا کہ بہت سے ایسے ووٹروں کے ووٹ اس حلقے میں منتقل کیے گئے جو کہ کسی اور حلقے کے ووٹرز تھے۔
"یہ بے ضابطگی نہیں یہ جرم ہے اور جن لوگوں کے ساتھ یہ ہوا وہ ایف آئی آر بھی کٹوا سکتے ہیں اور کٹوائیں گے۔"
عمران خان مسلم لیگ ن پر 2013ء کے عام انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کر کے اقتدار میں آنے کا الزام لگاتے رہے ہیں تاہم اس معاملے کی تحقیقات کرنے والے عدالتی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے انتخابی بے ضابطگیوں کی نشاندہی کی تھی۔
ادھر وزیراعظم نواز شریف نے جمعہ کو جنوبی پنجاب کے ضلع لودھراں کا دورہ کیا اور ضلع میں ترقیاتی کاموں کے لیے ڈھائی ارب روپے کے پیکج کا اعلان کیا۔
وزیراعظم کے دورے کے فوراً بعد ہی الیکشن کمیشن کی طرف سے اس ضلع سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 154 میں ضمنی انتخاب کے نظام الاوقات کا اعلان کیا جس کے مطابق یہاں 23 دسمبر کو پولنگ ہوگی۔
اس حلقے سے 2013ء میں صدیق بلوچ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہو کر مسلم لیگ ن میں شامل ہو گئے تھے۔ انھوں نے پاکستان تحریک انصاف کے ایک مرکزی رہنما جہانگیر ترین کو شکست دی تھی جنہوں نے کامیاب امیدوار کے خلاف ٹربیونل میں شکایت دائر کر رکھی تھی۔
ٹربیونل نے یہاں دوبارہ انتخاب کروانے کا حکم دیا تھا لیکن ساتھ ہی تعلیمی اسناد سے متعلق غلط بیانی پر صدیق بلوچ کو انتخابات میں حصہ لینے سے نااہل قرار دے دیا تھا۔ صدیق بلوچ نے اس کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا اور عدالت عظمیٰ نے ان کے حق میں فیصلہ دیتے ہوئے ان کی نااہلیت کو ختم کر دیا تھا۔
وزیراعظم کی طرف سے لودھراں کے لیے پیکج کے اعلان پر جہانگیر ترین کا کہنا تھا کہ اس کے خلاف الیکشن کمیشن سے رجوع کیا گا جائے کیونکہ یہ ان کے بقول ضمنی انتخاب پر اثر انداز ہونے کے مترادف ہے۔