پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کےسربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل نو کے لئے سپریم کورٹ میں دائر داخواست ایک مرتبہ پھر پاکستانی میڈیا کا گرما گرم موضوع بنی رہی۔
پیر اور منگل کی رات پیش ہونے والے تمام ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ان کی درخواست پر بحث مباحثہ ہوا جبکہ اخبارت میں بھی اسی کے چرچے رہے۔ حیرت انگیز طور پر کسی بھی جانب سے ڈاکٹر طاہرالقادری کو حمایت حاصل نہیں ہوئی اور بظاہر وہ تنہا ہی چیف جسٹس آف پاکستان کے جج صاحبان کے سخت ترین سوالات میں پھنسے ہوئے نظر آئے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے آج سے دو ماہ قبل کینیڈا سے وطن واپسی پر25 دسمبر کو لاہو ر میں ایک جلسہ کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ وہ 14 جنوری کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے اور دھرنا دیں گے۔ ملک میں شفاف انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ان کا مطالبہ تھا اور ہے۔ وہ سپریم کورٹ بھی اسی غرض سے پہنچے ہیں۔
ان کی درخواست کس حد تک اہمیت کی حامل ہے؟ اور اس کا مستقبل پرکیا اثر ہوگا؟ یہ جاننے کے لئے ’وی او اے‘ کے نمائندے نے مختلف سیاسی رہنماوٴں سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی جوکچھ اس طرح ہیں:
لیاقت بلوچ ، سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی
وہ کہتے ہیں، ’ڈاکٹر طاہر القادری کی پٹیشن کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کا قیام آج سے دو سال قبل آئین اور قانون کے مطابق عمل میں آیاتھا اور سوائے چند ایک جماعتوں کے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز پر اعتماد تھا اورہے۔ جو لوگ اب الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ یاتو پاکستان سے مخلص نہیں یا پھر وہ انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں۔‘
حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں لیاقت بلوچ کے بقول، ’جماعت اسلامی کی نظر میں، اس معاہدے کی نہ پہلے کوئی اہمیت تھی اور نہ اب ہے۔ عوام کو بھی اس معاہدے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وہ شروع میں حکومت کو برا بھلا کہتے رہے اور آخر میں اسی حکومت کے ساتھ معاہدہ کر کے اس کا حصہ بن گئے۔‘
سینیٹر اعتزاز احسن
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر اور سینیٹر اعتزاز احسن کے بقول،’ڈاکٹر طاہرالقادری کی دائر کردہ پٹیشن میں وزن نہیں، سپریم کورٹ اسے خارج کر دے گی‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈاکٹر قادری کو سپریم کورٹ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
احسن اقبال، ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات مسلم لیگ ن
پاکستان مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات احسن اقبال نے وائس آف امریکہ اظہار خیال میں بتایا: ’ڈاکٹر طاہر القادری اس پٹیشن کے ذریعے سے صرف الیکشن کا التوا چاہتے ہیں۔ ان کی درخواست ’بے وقت کی راگنی‘ کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ شاید اس طرح الیکشن کے التوا کا کوئی راستہ نکل آئے۔ رہی بات ان کے اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تو اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں۔جس طرح ان کا لانگ مارچ ناکام ہوا تھا، اسی طرح وہ سپریم کورٹ میں بھی ناکام ہوں گے۔‘
پیر اور منگل کی رات پیش ہونے والے تمام ٹی وی ٹاک شوز میں بھی ان کی درخواست پر بحث مباحثہ ہوا جبکہ اخبارت میں بھی اسی کے چرچے رہے۔ حیرت انگیز طور پر کسی بھی جانب سے ڈاکٹر طاہرالقادری کو حمایت حاصل نہیں ہوئی اور بظاہر وہ تنہا ہی چیف جسٹس آف پاکستان کے جج صاحبان کے سخت ترین سوالات میں پھنسے ہوئے نظر آئے۔
ڈاکٹر طاہرالقادری نے آج سے دو ماہ قبل کینیڈا سے وطن واپسی پر25 دسمبر کو لاہو ر میں ایک جلسہ کیا جس میں اعلان کیا گیا کہ وہ 14 جنوری کو اسلام آباد کی جانب لانگ مارچ کریں گے اور دھرنا دیں گے۔ ملک میں شفاف انتخابات کے لئے الیکشن کمیشن کی تشکیل نو ان کا مطالبہ تھا اور ہے۔ وہ سپریم کورٹ بھی اسی غرض سے پہنچے ہیں۔
ان کی درخواست کس حد تک اہمیت کی حامل ہے؟ اور اس کا مستقبل پرکیا اثر ہوگا؟ یہ جاننے کے لئے ’وی او اے‘ کے نمائندے نے مختلف سیاسی رہنماوٴں سے ان کے خیالات جاننے کی کوشش کی جوکچھ اس طرح ہیں:
لیاقت بلوچ ، سیکریٹری جنرل جماعت اسلامی
وہ کہتے ہیں، ’ڈاکٹر طاہر القادری کی پٹیشن کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کا قیام آج سے دو سال قبل آئین اور قانون کے مطابق عمل میں آیاتھا اور سوائے چند ایک جماعتوں کے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کو چیف الیکشن کمشنر اور چاروں صوبائی الیکشن کمشنرز پر اعتماد تھا اورہے۔ جو لوگ اب الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کا مطالبہ کر رہے ہیں وہ یاتو پاکستان سے مخلص نہیں یا پھر وہ انتخابات ملتوی کرانا چاہتے ہیں۔‘
حکومت اور ڈاکٹر طاہر القادری کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بارے میں لیاقت بلوچ کے بقول، ’جماعت اسلامی کی نظر میں، اس معاہدے کی نہ پہلے کوئی اہمیت تھی اور نہ اب ہے۔ عوام کو بھی اس معاہدے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔وہ شروع میں حکومت کو برا بھلا کہتے رہے اور آخر میں اسی حکومت کے ساتھ معاہدہ کر کے اس کا حصہ بن گئے۔‘
سینیٹر اعتزاز احسن
سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن کے سابق صدر اور سینیٹر اعتزاز احسن کے بقول،’ڈاکٹر طاہرالقادری کی دائر کردہ پٹیشن میں وزن نہیں، سپریم کورٹ اسے خارج کر دے گی‘۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ڈاکٹر قادری کو سپریم کورٹ میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے گا۔
احسن اقبال، ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات مسلم لیگ ن
پاکستان مسلم لیگ ن کے ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات احسن اقبال نے وائس آف امریکہ اظہار خیال میں بتایا: ’ڈاکٹر طاہر القادری اس پٹیشن کے ذریعے سے صرف الیکشن کا التوا چاہتے ہیں۔ ان کی درخواست ’بے وقت کی راگنی‘ کے سوا کچھ نہیں۔ وہ کوشش کر رہے ہیں کہ شاید اس طرح الیکشن کے التوا کا کوئی راستہ نکل آئے۔ رہی بات ان کے اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کی تو اس کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں۔جس طرح ان کا لانگ مارچ ناکام ہوا تھا، اسی طرح وہ سپریم کورٹ میں بھی ناکام ہوں گے۔‘