واشنگٹن —
گزشتہ سات برسوں سے کینیڈا میں سیاسی طور پر گوشہ نشین طاہرالقادری اپنے آبائی وطن پاکستان آتے ہی شہ سرخیوں کا موضوع بن گئے ہیں۔
صوفیانہ خیالات رکھنے والے 62 سالہ مولانا قادری پہلی بار پاکستان کے سیاسی افق پر لگ بھگ تین دہائیاں قبل اس وقت نمودار ہوئے تھے جب ملک پر اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی۔
اس وقت قادری صاحب نے ملک کی سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے مشیر برائے اسلامی قوانین کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرکے عوام الناس اور بااختیار حلقوں میں اپنی ساکھ بنائی تھی۔
سنہ 1981 میں انہوں نے 'منہاج القرآن' کے نام سے ایک تعلیمی، روحانی اور امدادی ادارے کی بنیاد ڈالی جس کی اس وقت 90 سے زائد ممالک میں شاخیں قائم ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے 'پاکستان عوامی تحریک' نامی اپنی ایک سیاسی جماعت بھی قائم کی۔
سنہ 2002 میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہونے والے عام انتخابات میں طاہر القادری نے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
لیکن دو سال بعد ہی وہ پاکستان کے سیاسی نظام کو بدعنوان اور خراب قرار دے کر اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ بعد ازاں مولانا کینیڈا منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرلی۔ تاہم کینیڈا میں قیام کے دوران بھی انہوں نے اپنی مذہی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
قادری صاحب کے نظریات
طاہر القادری اسلام کو جدید نظریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے داعی مانے جاتے ہیں جب کہ وہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو بھی اپنے معاشروں میں مکمل طور پر ضم ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔
مولانا کی اس مذہبی جدت پسندی کو بعض قدامت پسند حلقے ناگواری سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریات کو پاکستان میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں۔
سنہ 2010 میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل فتویٰ دیا تھا جس کے باعث انہیں مغربی ممالک میں خاصی شہرت اور اہمیت ملی۔
قادری صاحب کی تنظیم 'منہاج القرآن' کی ویب سائٹ کے مطابق تنظیم کے مقاصد میں امن، رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی، تعلیم، اور مختلف کمیونیٹیز کے درمیان رابطوں کو فروغ دینا؛ حقوقِ نسواں کے تحفظ اور مذہب میں جدت لانے کے لیے نوجوان مسلمانوں کے ساتھ رابطے اور سماجی بہبود کی سرگرمیاں شامل ہیں۔
مولانا چاہتے کیا ہیں؟
بیرونِ ملک اپنے طویل قیام کے بعد طاہر القادری گزشتہ ماہ دسمبر میں جب 'سیاست نہیں، ریاست بچائو' کے نعرے کے ساتھ وطن لوٹے تو نہ صرف ان کے چاہنے والوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا بلکہ وہ ذرائع ابلاغ کی آنکھ کا بھی تارا بن گئے۔
اپنے اس نعرے کے تحت قادری صاحب نے اول اول انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جس کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور دہشت گردی کے ستائے عام پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے تائید کی۔
لیکن بڑھتے بڑھتے اب قادری صاحب موجودہ حکومت کے خاتمے اور فوری انتخابات کے انعقاد کے مطالبات تک آگئے ہیں۔ ان کا سب سے متنازع مطالبہ فوج سے نگراں حکومت کی تشکیل میں کردار ادا کرنے کا ہے جو ان کی خواہش ہے کہ آئین میں طے شدہ 90 دن کی مدت کے بجائے طویل عرصے تک برسرِ اقتدار رہ کر سیاسی نظام میں اصلاحات کرے۔
"شیخ الاسلام" کے مخالفین کا موقف
قادری صاحب کے جس مطالبے نے پاکستان میں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ برانگیختہ کیا ہے وہ ان کا فوج کو نگراں حکومت کی تشکیل میں کردار دینے کا ہے۔
انہوں نے یہ عجیب مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری طریقے سے منتخب حکومت اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر رہی ہے اور ایک آئینی انتخابی طریقے سے انتقالِ اقتدار بظاہر ممکن نظر آرہا ہے۔
لیکن ایسے میں قادری صاحب کی جانب سے فوج کو سیاسی امور میں کردار دینے کا مطالبہ اور ماضی میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی حکومتوں میں ان کے کردار کے باعث ناقدین ان کے عزائم سے متعلق تشویش کا شکار ہیں اورانہیں فوج کی کٹھ پتلی قرار دے رہے ہیں۔
لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ مولانا کی اچانک پاکستان آمد اور اسلام آباد کی جانب 'لانگ مارچ' کی صورت میں سیاسی دھما چوکڑی مچانے کے باوجود انہیں پاکستان کی سیاسی بساط کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دینا تاحال قبل از وقت ہوگا۔
ماہرین کے مطابق انہیں خطرہ اس لیے نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ قادری صاحب کی اپیل پر ان کے چند ہزار معتقدین تو اسلام آباد ضرور پہنچے ہیں لیکن یہ مجمع "لاکھوں" کی اس تعداد سے بہت دور ہے جس کی قادری صاحب نے بڑھکیں ماری تھیں۔
مزیدار بات یہ ہے کہ انتخابی سیاست میں اصلاحات اور نظام بدلنے کا دعویٰ کرنے والے قادری صاحب خود پاکستان کے انتخابی نظام کا حصہ ہی نہیں بن سکتے کیوں کہ وہ کینیڈا کے شہری ہیں اور پاکستان کے قانون کےتحت دوہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص پارلیمان کا انتخاب نہیں لڑ سکتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا کی سیاسی مہم جوئی آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرتی ہے اور پاکستانی سیاست اور سماج پر کیا مثبت یا منفی اثرات ڈالتی ہے۔
صوفیانہ خیالات رکھنے والے 62 سالہ مولانا قادری پہلی بار پاکستان کے سیاسی افق پر لگ بھگ تین دہائیاں قبل اس وقت نمودار ہوئے تھے جب ملک پر اس وقت کے فوجی حکمران جنرل ضیا الحق کی حکومت تھی۔
اس وقت قادری صاحب نے ملک کی سپریم کورٹ اور وفاقی شرعی عدالت کے مشیر برائے اسلامی قوانین کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کرکے عوام الناس اور بااختیار حلقوں میں اپنی ساکھ بنائی تھی۔
سنہ 1981 میں انہوں نے 'منہاج القرآن' کے نام سے ایک تعلیمی، روحانی اور امدادی ادارے کی بنیاد ڈالی جس کی اس وقت 90 سے زائد ممالک میں شاخیں قائم ہیں۔ بعد ازاں انہوں نے 'پاکستان عوامی تحریک' نامی اپنی ایک سیاسی جماعت بھی قائم کی۔
سنہ 2002 میں اس وقت کے فوجی صدر پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں ہونے والے عام انتخابات میں طاہر القادری نے قومی اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کی۔
لیکن دو سال بعد ہی وہ پاکستان کے سیاسی نظام کو بدعنوان اور خراب قرار دے کر اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ بعد ازاں مولانا کینیڈا منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرلی۔ تاہم کینیڈا میں قیام کے دوران بھی انہوں نے اپنی مذہی سرگرمیاں جاری رکھیں۔
قادری صاحب کے نظریات
طاہر القادری اسلام کو جدید نظریات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے داعی مانے جاتے ہیں جب کہ وہ مغربی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو بھی اپنے معاشروں میں مکمل طور پر ضم ہونے کی تلقین کرتے ہیں۔
مولانا کی اس مذہبی جدت پسندی کو بعض قدامت پسند حلقے ناگواری سے دیکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ان کے نظریات کو پاکستان میں عوامی مقبولیت حاصل نہیں۔
سنہ 2010 میں انہوں نے دہشت گردی کے خلاف ایک طویل فتویٰ دیا تھا جس کے باعث انہیں مغربی ممالک میں خاصی شہرت اور اہمیت ملی۔
قادری صاحب کی تنظیم 'منہاج القرآن' کی ویب سائٹ کے مطابق تنظیم کے مقاصد میں امن، رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی، تعلیم، اور مختلف کمیونیٹیز کے درمیان رابطوں کو فروغ دینا؛ حقوقِ نسواں کے تحفظ اور مذہب میں جدت لانے کے لیے نوجوان مسلمانوں کے ساتھ رابطے اور سماجی بہبود کی سرگرمیاں شامل ہیں۔
مولانا چاہتے کیا ہیں؟
بیرونِ ملک اپنے طویل قیام کے بعد طاہر القادری گزشتہ ماہ دسمبر میں جب 'سیاست نہیں، ریاست بچائو' کے نعرے کے ساتھ وطن لوٹے تو نہ صرف ان کے چاہنے والوں نے ان کا پرتپاک استقبال کیا بلکہ وہ ذرائع ابلاغ کی آنکھ کا بھی تارا بن گئے۔
اپنے اس نعرے کے تحت قادری صاحب نے اول اول انتخابی نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کیا جس کی لوڈشیڈنگ، مہنگائی اور دہشت گردی کے ستائے عام پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے تائید کی۔
لیکن بڑھتے بڑھتے اب قادری صاحب موجودہ حکومت کے خاتمے اور فوری انتخابات کے انعقاد کے مطالبات تک آگئے ہیں۔ ان کا سب سے متنازع مطالبہ فوج سے نگراں حکومت کی تشکیل میں کردار ادا کرنے کا ہے جو ان کی خواہش ہے کہ آئین میں طے شدہ 90 دن کی مدت کے بجائے طویل عرصے تک برسرِ اقتدار رہ کر سیاسی نظام میں اصلاحات کرے۔
"شیخ الاسلام" کے مخالفین کا موقف
قادری صاحب کے جس مطالبے نے پاکستان میں مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں کو سب سے زیادہ برانگیختہ کیا ہے وہ ان کا فوج کو نگراں حکومت کی تشکیل میں کردار دینے کا ہے۔
انہوں نے یہ عجیب مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا ہے جب پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری طریقے سے منتخب حکومت اپنی پانچ سالہ مدت مکمل کر رہی ہے اور ایک آئینی انتخابی طریقے سے انتقالِ اقتدار بظاہر ممکن نظر آرہا ہے۔
لیکن ایسے میں قادری صاحب کی جانب سے فوج کو سیاسی امور میں کردار دینے کا مطالبہ اور ماضی میں جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی حکومتوں میں ان کے کردار کے باعث ناقدین ان کے عزائم سے متعلق تشویش کا شکار ہیں اورانہیں فوج کی کٹھ پتلی قرار دے رہے ہیں۔
لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ مولانا کی اچانک پاکستان آمد اور اسلام آباد کی جانب 'لانگ مارچ' کی صورت میں سیاسی دھما چوکڑی مچانے کے باوجود انہیں پاکستان کی سیاسی بساط کے لیے ایک سنجیدہ خطرہ قرار دینا تاحال قبل از وقت ہوگا۔
ماہرین کے مطابق انہیں خطرہ اس لیے نہیں سمجھنا چاہیے کیوں کہ قادری صاحب کی اپیل پر ان کے چند ہزار معتقدین تو اسلام آباد ضرور پہنچے ہیں لیکن یہ مجمع "لاکھوں" کی اس تعداد سے بہت دور ہے جس کی قادری صاحب نے بڑھکیں ماری تھیں۔
مزیدار بات یہ ہے کہ انتخابی سیاست میں اصلاحات اور نظام بدلنے کا دعویٰ کرنے والے قادری صاحب خود پاکستان کے انتخابی نظام کا حصہ ہی نہیں بن سکتے کیوں کہ وہ کینیڈا کے شہری ہیں اور پاکستان کے قانون کےتحت دوہری شہریت رکھنے والا کوئی شخص پارلیمان کا انتخاب نہیں لڑ سکتا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مولانا کی سیاسی مہم جوئی آنے والے دنوں میں کیا رخ اختیار کرتی ہے اور پاکستانی سیاست اور سماج پر کیا مثبت یا منفی اثرات ڈالتی ہے۔