احتجاجی ریلی کے ساتھ اسلام آباد پہنچنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف سے استعفے اور نئے انتخابات کے مطالبے پر نواز انتظامیہ کا کہنا ہے کہ یہ ماورائے آئین اور نا قابل قبول ہیں۔
وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال کا کہنا ہے کہ ملک میں کوئی ایسی سیاسی صورتحال نہیں کہ وزیراعظم مستعفی ہوں۔ ان کے بقول حکومت ملک میں اقتصادی و سماجی ترقی کے منصوبوں پر کاربند ہے۔
’’وزیراعظم صاحب کو وزیراعظم نا تو قادری صاحب نے بنایا نا عمران خان صاحب نے۔ انہیں پاکستانی عوام اور قومی اسمبلی نے بنایا ہے۔ روایت اگر یہ پڑگئی کہ 5 یا 6 ہزار بندے لا کر کوئی استعفیٰ مانگ سکتا ہے تو ہر 6 ماہ بعد حکومت گرنا شروع ہوجائے گی۔‘‘
گزشتہ عام انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کی تحقیقات نا ہونے پر تحریک انصاف کے رہنما عمران خان نواز انتظامیہ کے مینڈیٹ کو ’’جعلی‘‘ قرار دیتے ہوئے انتخابی اصلاحات کے بعد ایک نئے اور غیر جانبدار الیکشن کمیشن کے تحت دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں۔
تحریک انصاف قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی دوسری اور خیبرپختونخواہ میں حکمران جماعت ہے۔
بعض سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سے استعفے کا مطالبہ کوئی انہونی بات نہیں تاہم سابقہ حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر سعید غنی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ موقف میں سختی ملک میں جمہوری نظام کے لیے خطرناک ہو سکتی ہے۔
’’انہوں نے مطالبات پیش کردیے ہیں۔ اگر حکومت انتخابی اصلاحات کی تجویز منظور کرتی ہے تو یہ بھی آپ کی کامیابی ہوگی۔ ہمارے سیاسی نظام میں انہوں نے اچھا کام کیا کہ انہوں نے وہ لوگ ووٹ کے لیے لائے جو کبھی نہیں آتے تھے تو اگر وہ عمران خان سے مایوس ہوئے تو پھر انہیں مایوسی کے سمندر سے نکالنا مشکل ہوجائے گا۔‘‘
احتجاجی مارچ سے دو دن قبل ہی وزیراعظم نواز شریف نے تحریک انصاف کے انتخابی دھاندلیوں سے متعلق الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا تھا۔ جسے عمران خان نے نے مسترد کردیا تھا۔
حکومت اور احتجاج کرنے والی حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کے درمیان ثالثی کی کوشش کرنے والی مذہبی و سیاسی جماعت جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے حکومت سے کہا کہ وہ ایسے اقدمات و رویہ اختیار نا کرے جس میں ماحول میں مزید تناؤ اور کشیدگی پیدا ہو۔
’’1977 میں بھی دھاندلی کے خلاف مہم چلی اور اس کا نتیجہ بھی اس سے بدتر نکلا۔ لیکن اس بار کی مہم کی ہم حمایت کرتے ہیں اور اس کا نتیجہ بہتر ہونا چاہیے۔ اس لیے انتخابات کی اصلاحات تحریک انصاف کا مطالبہ نہیں بلکہ پوری قوم کا ہے۔ آئندہ کے انتخابات شکوک و شبہات سے پاک ہونے چاہیئں۔‘‘
حکومت میں شامل اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ موجودہ سیاسی صورتحال کے تناظر میں تحریک انصاف سے رابطے کی کوششیں تو ہورہی ہیں تاہم ان کے بقول کوئی مذاکرات نہیں ہورہے۔