پاکستان کی سنیٹ کے چیئرمین میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ ملک میں ٹیکنو کریٹس کی حکومت کے قیام کی باتیں بدقسمتی کی علامت ہیں۔ ملکی آئین میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ایسی باتیں سن کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ملک کے تعلیمی نصاب کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے۔
کراچی میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ میں صوبائی خودمختاری کے موضوع پر سیمینار سے خطاب اور میڈیا سے گفتگو کے دوران چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ آئین میں کی گئی اٹھارھویں آئینی ترمیم کے تحت ملنے والے صوبائی حقوق کو چھیننا چاہتی ہے۔ غیرآئینی اقدامات کے سبب اس ترمیم پرعملدرآمد ناممکن ہوجائے گا۔ اب ہمیں طے کرنا ہی ہوگا کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے یا کوئی اور۔ ایک ادارہ دوسرے کے کاموں میں غیر آئینی مداخلت نہ کرے۔ ملک کا آئین سب سے بالا تر ہے، ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے کام کرے۔
میاں رضا ربانی نے کہا کہ آئندہ انتخابات مقررہ وقت پر ہونے چائیے۔ دوسری بار جمہوری حکومت کو اپنا دور پورا کرنے دینا جائے۔ چیئر مین سینیٹ نے یاددہانی کرائی کہ بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناح کے 1929 میں پیش کردہ چودہ نکات میں سے 4 نکات صوبائی مختاری پر ہی تھے۔ لیکن موجودہ حالات میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے۔
میاں رضا ربانی نے سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بدقسمتی سے ریاست ایک آمر کو عدالت کے کٹہرے میں نہیں لاسکی۔ سابقہ آمر باہر بیٹھ کر سیاست پر تبصرہ کرتا ہے۔ رضا ربانی نے کہا کہ دہشتگردی کے سلسلے میں آج ہمیں جن حالات کا ہمیں سامنا ہے اس میں مشرف کا کردار موجود ہے۔ چئیرمین سنیٹ کا کہنا تھا کہ آجکل ٹیکنوکریٹس حکومت کے قیام کی افواہیں پھیلائی جاری ہیں۔ ایسے غیر آئینی عمل کی باتیں سن کر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر احتساب یقینی بنانا ہے تو سب کے لیے ہونا چاہیے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ کچھ ادارے کہیں ہم اپنے نظام کے تحت جواب دہ ہیں۔
چئیرمین سنیٹ نے موجودہ حکومت پر نقطہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کو بھی صحیح طریقے سے استعمال نہیں کیا جارہا۔ 3 سال سے نیا نیشنل فائنینس ایوارڈ دیا گیا اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کا کوئی امکان ہے۔ موجودہ حالات میں کچھ بھی ٹھیک نہیں ہورہا ہے۔ ان کے خیال میں ملک میں وفاقی سطح پر سول سروس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے۔ جتنی فنڈنگ صوبوں کے محکمہ صحت اور تعلیم کے شعبے میں ہے اور کسی شعبے میں نہیں ۔لیکن ریاست ان شعبوں پر قابض رہنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ کیا ملکی نظام صحیح چل رہا ہے؟ اس کا جواب ہے، نہیں۔