واشنگٹن —
سال 2008 کے صدارتی انتخاب میں موجودہ حکمران اور اس وقت کی اپوزیشن مسلم لیگ نواز کی جانب سے نامزد امیدوار جسٹس سعید الزماں صدیقی نے کہا ہے کہ انہیں اس مرتبہ نظر انداز کیے جانے پر افسوس نہیں مگر حیرت ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اپوزیشن میں ہوں اور ان کے پاس الیکٹورل کالج میں ووٹوں کی تعداد کم ہو تو وہ پر چار کرتی ہیں کہ وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک غیر سیاسی شخصیت کو ملک کا صدر ہونا چاہیئے۔
لیکن جب اسی پارٹی کو اکثریت حاصل ہو جائے اور اس کے حمایت یافتہ امیدوار کی فتح یقینی ہو تو انہیں اپنا جیالا یا متوالا موزوں دکھائی دیتا ہے کہ اس سے ان کے پارٹی کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں سابق چیف جسٹس نے زیر لب شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز لیگ نے اس مرتبہ انہیں اپنے صدارتی امیدواروں کی فہرست میں تو رکھا لیکن ان سے کسی ایک بھی رہنما نے ان کی مرضی تک نہیں پوچھی۔
’’میرا نام اخباروں میں آیا تو مجھے لگا کہ شاید میڈیا کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ لیکن ہر روز اس حوالے سے خبریں آنے لگیں تو مجھے لگا کہ نواز لیگ جن امیدوراروں کے نام پر غور کر رہی ہے اس میں میرا نام شامل ہے لیکن مجھے بالکل امید بھی نہیں تھی کہ میرا نام فائنل ہو جائے گا کیونکہ اس بار پارٹی کے کسی رہنما نے مجھ سے میری رائے تک پوچھنے کے لیے رابطہ نہیں کیا تھا لیکن 2008 میں جب صدارت کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تو چوہدری نثار علی خان نے مجھ سے ٹیلی فون پر بات کی اور مجھ سے کہا کہ میاں نواز شریف صاحب چاہتے ہیں کہ آپ کو پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدارتی امیدوار نامزد کیا جائے۔‘‘
سعیدالزماں صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک غیر سیاسی شخص کا فلسفہ تو اب بھی صادق آتا تھا مگر اس بار انتخاب ایک پارٹی کارکن بنا۔
انھوں نے کہا کہ چند سال پہلے جب آصف علی زرداری کو صدر بنایا جا رہا تھا تو ان پر سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ان کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی ہے مگر آج پھر ایک سیاسی وابستگی رکھنے والی شخصیت کو عہدہ صدارت کا امیدوار بنایا گیا ہے اور وہ فلسفہ بدل گیا ہے۔
’’میں حیران تھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر میرا نام کیسے شامل کیا گیا بہرحال مجھے کوئی خاص امید نہیں تھی کہ یہ لوگ میرے بارے میں سنجیدہ ہیں۔‘‘
سعید الزماں صدیقی نے 1999 میں جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد عبوری آئنیی حکم نامے (پی سی او) کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے گھر جانے کو ترجیح دی تھی۔
لیکن جب اسی پارٹی کو اکثریت حاصل ہو جائے اور اس کے حمایت یافتہ امیدوار کی فتح یقینی ہو تو انہیں اپنا جیالا یا متوالا موزوں دکھائی دیتا ہے کہ اس سے ان کے پارٹی کے مفادات کا تحفظ ہو سکے۔
وائس آف امریکہ کے ساتھ خصوصی گفتگو میں سابق چیف جسٹس نے زیر لب شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ نواز لیگ نے اس مرتبہ انہیں اپنے صدارتی امیدواروں کی فہرست میں تو رکھا لیکن ان سے کسی ایک بھی رہنما نے ان کی مرضی تک نہیں پوچھی۔
’’میرا نام اخباروں میں آیا تو مجھے لگا کہ شاید میڈیا کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ لیکن ہر روز اس حوالے سے خبریں آنے لگیں تو مجھے لگا کہ نواز لیگ جن امیدوراروں کے نام پر غور کر رہی ہے اس میں میرا نام شامل ہے لیکن مجھے بالکل امید بھی نہیں تھی کہ میرا نام فائنل ہو جائے گا کیونکہ اس بار پارٹی کے کسی رہنما نے مجھ سے میری رائے تک پوچھنے کے لیے رابطہ نہیں کیا تھا لیکن 2008 میں جب صدارت کے عہدے کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا تو چوہدری نثار علی خان نے مجھ سے ٹیلی فون پر بات کی اور مجھ سے کہا کہ میاں نواز شریف صاحب چاہتے ہیں کہ آپ کو پارٹی کے پلیٹ فارم سے صدارتی امیدوار نامزد کیا جائے۔‘‘
سعیدالزماں صدیقی نے مسکراتے ہوئے کہا کہ وفاق کی مضبوطی کے لیے ایک غیر سیاسی شخص کا فلسفہ تو اب بھی صادق آتا تھا مگر اس بار انتخاب ایک پارٹی کارکن بنا۔
انھوں نے کہا کہ چند سال پہلے جب آصف علی زرداری کو صدر بنایا جا رہا تھا تو ان پر سب سے بڑا اعتراض یہی تھا کہ ان کی ایک سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی ہے مگر آج پھر ایک سیاسی وابستگی رکھنے والی شخصیت کو عہدہ صدارت کا امیدوار بنایا گیا ہے اور وہ فلسفہ بدل گیا ہے۔
’’میں حیران تھا کہ مجھ سے پوچھے بغیر میرا نام کیسے شامل کیا گیا بہرحال مجھے کوئی خاص امید نہیں تھی کہ یہ لوگ میرے بارے میں سنجیدہ ہیں۔‘‘
سعید الزماں صدیقی نے 1999 میں جنرل مشرف کی فوجی بغاوت کے بعد عبوری آئنیی حکم نامے (پی سی او) کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے گھر جانے کو ترجیح دی تھی۔