پاکستان میں وفاق کے زیرِ انتظام قبائلی علاقوں یعنی فاٹا میں بلدیاتی نظام متعارف کرانے کے حکومتی اعلان کا مقامی رہنماؤں کی جانب سے عمومی طور پر خیر مقدم کیا جا رہا ہے۔
صدر آصف علی زرداری نے یومِ آزادی کی مناسبت سے رواں ہفتے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں یہ اعلان کرتے ہوئے اسے قبائلی عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں میں ایک اور قدم قرار دیا تھا۔
باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما شیخ جہانزادہ نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر گفتگو میں حالیہ پیش رفت کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے اس پر جلد از جلد عمل درآمد پر زور دیا ہے۔
’’فاٹا کے سیاسی و قبائلی عمائدین، وکلا اور دیگر دانشور حضرات سے مشاورت کرکے اس پر عمل درآمد کے لیے جامع منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ قبائلی علاقوں کے عوام خود حکومت کرنے کے قابل ہو جائیں۔‘‘
شیخ جہانزادہ نے کہا کہ قبائل طویل عرصے سے مروجہ نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں، اور انتظامی عمل میں عوام کی مجوزہ شمولیت سے خطے میں عسکریت پسند عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔
’’جب عوام سماجی، اقتصادی اور دیگر معاملات میں شامل ہو جائیں گے تو امن و امان میں بھی مدد ملے گی اور ترقی کے راستے بھی کھلیں گے کیوں کہ اس وقت قبائلی علاقوں میں سماجی اور اقتصادی ترقی کا پورا اختیار سول انتظامیہ یا بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
تاہم بعض قبائلی رہنماؤں نے بلدیاتی نظام متعارف کرنے کے حکومتی اعلان کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ پائیدار امن کے قیام سے پہلے بلدیاتی نظام کا نفاذ موثر ثابت نہیں ہوگا۔
ملک نصر اللہ شمالی وزیرستان کے ایک سرکردہ قبائلی رہنما ہیں، جو القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہ ہونے کی وجہ سے اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومتی اقدام کی شدید مخالفت کی۔
’’ہمارے علاقے میں بلدیاتی نظام سے پہلے امن کی ضرورت ہے، اگر امن نہیں ہے تو بلدیاتی نظام کیسے چل سکتا ہے۔‘‘
مگر دیگر چھ نسبتاً پُر امن قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے عمائدین ان تحفظات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان میں کرم ایجنسی کے ملک عطا اللہ خان بھی شامل ہیں۔
’’ہم کوشش تو کر سکتے ہیں کہ ان حالات میں وہاں دیکھیں کہ یہ نظام چل سکتا ہے یا نہیں ... تجربہ ہونا چاہیئے چاہے حالات اچھے ہوں یا خراب۔‘‘
پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کے نمائندوں کا خیال ہے کہ فاٹا میں سیاسی سرگرمیوں کا فروغ شدت پسند رجحانات کی حوصلہ شکنی میں مدد دے گا۔
صدر آصف علی زرداری نے یومِ آزادی کی مناسبت سے رواں ہفتے اسلام آباد میں منعقد ہونے والی ایک تقریب میں یہ اعلان کرتے ہوئے اسے قبائلی عوام کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی کوششوں میں ایک اور قدم قرار دیا تھا۔
باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والے ایک قبائلی رہنما شیخ جہانزادہ نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے ٹیلی فون پر گفتگو میں حالیہ پیش رفت کو خوش آئندہ قرار دیتے ہوئے اس پر جلد از جلد عمل درآمد پر زور دیا ہے۔
’’فاٹا کے سیاسی و قبائلی عمائدین، وکلا اور دیگر دانشور حضرات سے مشاورت کرکے اس پر عمل درآمد کے لیے جامع منصوبہ تیار کیا جائے تاکہ قبائلی علاقوں کے عوام خود حکومت کرنے کے قابل ہو جائیں۔‘‘
جب عوام سماجی، اقتصادی اور دیگر معاملات میں شامل ہو جائیں گے تو امن و امان میں بھی مدد ملے گی اور ترقی کے راستے بھی کھولیں گےشیخ جہانزادہ
شیخ جہانزادہ نے کہا کہ قبائل طویل عرصے سے مروجہ نظام میں اصلاحات کا مطالبہ کرتے آ رہے ہیں، اور انتظامی عمل میں عوام کی مجوزہ شمولیت سے خطے میں عسکریت پسند عناصر کی بھی حوصلہ شکنی ہوگی۔
’’جب عوام سماجی، اقتصادی اور دیگر معاملات میں شامل ہو جائیں گے تو امن و امان میں بھی مدد ملے گی اور ترقی کے راستے بھی کھلیں گے کیوں کہ اس وقت قبائلی علاقوں میں سماجی اور اقتصادی ترقی کا پورا اختیار سول انتظامیہ یا بیوروکریسی کے ہاتھ میں ہے۔‘‘
تاہم بعض قبائلی رہنماؤں نے بلدیاتی نظام متعارف کرنے کے حکومتی اعلان کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ پائیدار امن کے قیام سے پہلے بلدیاتی نظام کا نفاذ موثر ثابت نہیں ہوگا۔
ملک نصر اللہ شمالی وزیرستان کے ایک سرکردہ قبائلی رہنما ہیں، جو القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک کے جنگجوؤں کی مبینہ محفوظ پناہ گاہ ہونے کی وجہ سے اس وقت عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اُنھوں نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں حکومتی اقدام کی شدید مخالفت کی۔
’’ہمارے علاقے میں بلدیاتی نظام سے پہلے امن کی ضرورت ہے، اگر امن نہیں ہے تو بلدیاتی نظام کیسے چل سکتا ہے۔‘‘
مگر دیگر چھ نسبتاً پُر امن قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے عمائدین ان تحفظات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان میں کرم ایجنسی کے ملک عطا اللہ خان بھی شامل ہیں۔
’’ہم کوشش تو کر سکتے ہیں کہ ان حالات میں وہاں دیکھیں کہ یہ نظام چل سکتا ہے یا نہیں ... تجربہ ہونا چاہیئے چاہے حالات اچھے ہوں یا خراب۔‘‘
پیپلز پارٹی کی سربراہی میں قائم مخلوط حکومت کے نمائندوں کا خیال ہے کہ فاٹا میں سیاسی سرگرمیوں کا فروغ شدت پسند رجحانات کی حوصلہ شکنی میں مدد دے گا۔